230

گستاخِ اولیائے کرام: کشمیر کے سماجی تناظر میں

ڈاکٹر محی الدین زورؔ کشمیری

سید السادات سالارِعجم دست اور معمار تقدیر امم (علامہ اقبالؒ)

محسن کشمیر میر سید علی ہمدانیؒ پر ہم اس کالم میں بات نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ امیر کبیر شاہ ہمدان ایک ادارہ ہے اور ان پر ادارتی سطح پر ہی بات ہونی چاہئے لیکن یہاں ہماری کچھ مجبوری ہے یا بارِ احسان یا پھر جذبہ کشمیریت کہ ہم اپنے خیالات کا اظہار کرنے لگے۔
سب سے پہلے میں یہاں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان کی شان میں اور اولیائے کرام کے بارے میں جو گستاخی کی گئی اور جس کا اچھا خاصا ردعمل بھی آگیا اور جتنے منہ اتنی باتیں اور اس میں روایتی یا حسب عادت یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’یہ باہر کی کوئی سازش ہے‘‘ جیسا کہ ہم کشمیری اپنے ہر مسئلے کے بارے میں یہی کہتے آئے ہیں۔ تو یہ سازش باہر کی ہے یا اندر کی وہ تو اپنی جگہ لیکن میرے نزدیک دو باتیں خاص ہیں (۱) پٹرول کی معمولی کمی ہوئی، تو ہم کشمیریوں نے ایسی حرکتیں کیں کہ جنہیں دیکھ کر ہم اپنے آپ کا جائزہ لیتے ہیں کہ میں کسی بندروں والی بستی میں تو نہیں رہتا ہوں یا پھر یہاں کی سیاست، ڈرگس، چوری ، ڈکیتی، رشوت، گھریلو مسائل، سرکاری معاملات۔۔۔سبھی معاملات میں ہم بہکے ہوئے ہیں ۔ (۲) پچھلے کئی برسوں سے میں  نے یہ بھی عام مشاہدہ کیا ہے کہ جو شخص کسی کام کا نہ ہو وہ سیاست، مذہب اور کلچر (فنون ادب وغیرہ) میں خواہ مخواہ گھس جاتا ہے اور یہاں ایسے لوگوں کو انگلیوں پر نچانے کی کوشش کرتا ہے کہ جنہوں نے ان شعبوں میں اپنے خون سے چراغ روشن کئے۔ یعنی جو ڈاکٹری کرنے میں ناکام ہوا، تو وہ مولوی، لیڈر اور ادیب بھی خو د کو کہلاتا ہے، اسی لئے جب حیوانوںکے ایک ڈاکٹر نے ایک سمینار میں منہ چبا چبا کر ’’پوسٹ ماڈرنزم ان لٹریچر‘‘ کے موضوع پر بات کی تو ادب کے ایک پروفیسر نے انہیں کہا ڈاکٹر صاحب بہتر رہتا کہ اگر آپ مویشیوں کے ڈاکٹر ہونے کے ناطے اس بات پر ریسرچ کرتے کہ ہماری گائے دس کلو دودھ کی جگہ کیسے پندرہ کلو دودھ دے دیتی ۔ یہ ادب ما بعد جدیدیت آپ کا معاملہ نہیں ہے۔
اسی طرح جب ایک اور وٹانری ڈاکٹر تیز طرار اے ڈی سی کے پاس اپنے محلے کی سڑک کا مسئلہ لےکر گیا تو اے ڈی سی نے انہیں کہا پہلے مجھے یہ بتایئے کہ آپ ڈیوٹی پرکیوں حاضر نہیں ہوئے اور ویسے بھی سڑک پانی بجلی وغیرہ محلے کی کمیٹی کا کام ہے اور تمہارا کام ہے بچھڑوں او ربھیڑ بکریوں کا علاج کرنا ہے۔!
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہر سبجیکٹ کا یا پھر ہر پیشے کا اثر انسانی ذہن اور اس کی نفسیات پر رہتا ہے۔ جیسے ہم ماسٹروں کو ہر کوئی اپنا بچہ یا طالب علم لگتا ہے، اسی طرح وٹانری ڈاکٹروں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ وہ بے زبان حیوانوں کا علاج کرتے ہیں اور وہ بے چارے انہیں کچھ بھی نہیں بولتے ہیں جتنی بڑی سوئی یا پائپ وہ ان گھسائیں گے وہ چوں چرا بھی نہیں کریں گے۔ اکثر حیوانوں کا علاج ٹھیک نہیں ہوتا ہے تو پھر قصائی تیار ہے یا اور کچھ۔۔۔۔
تو ہم بات کر رہے ہیں کہ وٹانری ڈاکٹر آج کل نئے نئے رنگ بدلتے ہیں۔ حالانکہ پچھلے برسوں سے وہ لوگ اس کا بھرپور فائدہ بھی اُٹھا رہے ہیں۔ جیسے عام ڈاکٹری یا انجینئری کے مقابلے میں اس کورس میں داخلہ ملنا آسان ہوتا ہے، باہر سے یہ کورس کرکے امیداوار نہیں آتے ہیں، اس لئے جتنے بھی امیدوار دستیاب ہوتے ہیں وہ PSCکے ذریعے اسسٹنٹ سرجن ہوہی جاتے ہیں۔ اس کے بعد جبکہ انہیں کوئی کام نہیں ہوتا ہے تو بہت سارے لوگ JKASمیں بھی چلے جاتے ہیں۔ اب جو فضلات بچا ہے، تو اس کے دماغ میں فتور ہی پیدا ہوگا۔ گستاخ اولیاء کرام سرغنہ کا تعلق بھی اسی شعبے سے ہے۔ اس لئے جب بھی ایسے لوگوں کو موقع ملے گا تو وہ واہی تباہی ہی بکیں گے۔ اب نہ صرف اس کا تعلیمی اور پیشہ ورانہ پس منظر دیکھا جا سکتا ہے، بلکہ جس جماعت کے ساتھ وہ وابستہ ہے وہ کیا ہے۔ وہابی۔۔۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ وہابی کو اہلحدیث نہ کہا جائے دونوں الگ الگ ہیں۔ وہابی ایک بہت بڑا کنفیوژن۔ مسلمانوں کو دھوکہ۔۔۔ اور انجام۔۔۔ یہودی سازش؟ یعنی حضورؐ سے لے کر وہابی رول کے شروع ہونے تک عرب میں ایک اسلام تھا جس کو ہم مانتے ہیں۔ اس کے بعد وہابیوں نے عرب میں کیا اسلام دکھایا۔۔۔؟البتہ عرب میں مقیم میرے ایک رشتہ دار نے مجھے بتایا کہ ان وہابیوں کی زور زبردستی عرب میں صرف وہاں کے بڑے بڑے شہروں میں ہی چلتی ہے باقی عرب کے عام باشندے خاص کر دیہاتی وہی مسلمان ہیں جو ہم ہیں۔ شہزادہ سلمان نے عرب کلچر کاجو یوٹرن کیا ہے وہ تو دنیا کو معلوم ہے۔؟
خیر اب ہم اپنے کشمیر کی ہی بات کریں گے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے پچھلے کئی برسوں سے کشمیر اور کشمیریت کو سمجھا ہی نہیں، خاص کر یہاں کے چند مخصوص blue eyed افراد یا طبقوں نے ہمیشہ ملک کی تو دور کی بات وہ تو اپنے جنت بے نظیر کشمیر کی بات کبھی نہیں کرتے، کیونکہ وہ یہاں زندگی کے ہر معاملے میں یہاں تک کہ حکومت کے معاملے میں بھی اقتدار کے بھوکے ہیں۔ چونکہ ان کی یہ ہوس کسی بھی صورت میں پوری نہ ہو سکی اور نہ ہو سکتی ہے اس لئے انہوں نے ہمیشہ چند نام نہاد مسلمان ملکوں کے گیت گائے۔ ان کے آقا ان بے کاروں کو بھیک میں کچھ پیسے دیتے تھے، ان کے نابکار بچوں کو مفت میں بڑے بڑے پروفیشنل کالجوں میں داخلے اور لولے لنگڑوں کو کاروبار یا ان کے محکموں میں نوکریاں۔ اب جبکہ حکومت اور انتظامیہ نے ان کی لگام کس لی اور بھلا ہو انٹرنیٹ کا کہ جس نے سات پروں کے راز فاش کر لئے، اب ہمیں کوئی یہ نہیں بتا سکتا ہے کہ وہاں یہ ترقی اور وہاں کےلوگوں میں ایمان کی حرارت بجلی سے بھی تیز ہے۔!
اس کہانی کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ آج ہر کہیں آزادی ہے اور دنیا میں مختلف مکتبہ فکر کے لوگ رہتے ہیں۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے تمہیں کیا ہے۔ تم اپنی راہ پر چلو ہم اپنی راہ پر۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ تم اپنا عقیدہ یا جو بھی آپ کا اندرون ہے اس کو اس طرح سے پیش کرو گے کہ جس سے دوسروں کے عقیدے یا دوسروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچ جائے گی۔ یہ ایسی بات ہوئی کہ آج کل کچھ فمنسٹ عورتیں کہتی ہیں ’’میرا جسم میری مرضی یا میں عریاں چلوں گی، تو تم اپنی آنکھیں بند کرو‘‘۔ اب یہاں ایک صورت یہ بھی نکل جاتی ہے کہ آپ اس سے پہلے بھی اپنے اپنے ایوانوں یا مدرسوں میں دوسرے مذاہب، مسلکوں یا عقیدوں کے بارے میں کیا کیا کچھ کہتے رہتے ہیں۔ لیکن اگر آپ اپنے دل کے بڑاس نکال رہے ہو اور پھر اس کا ویڈیو بن کر اسے وائرل کیا جاتا ہے تو ذمہ دار کون؟ جن کے اعتقادات اور جذبات تم نے مجروح کئے ہیں ان کا ماننا ہے کہ برصغیر میں ہمیں کوئی پیغمبر دین لے کر نہیں آیا ہے بلکہ یہ حضرت خواجہ معین الدین چستیؒ ہی ہیں کہ جنہوں نے ہم تک اللہ اور ان کے رسولؐ کا پیغام لایا۔ دوسری طرف محسن کشمیر میر سید علی ہمدانیؒ کی زندگی ان کی تعلیمات، ان کی دینی خدمات، ان کے اسلامی مشن یا پھر کشمیر کی معاشیات، ان کے آرکی ٹکچر، کاروبار دست کاری۔۔ کلچرل خدمات ۔ غرضیکہ کس کس فیلڈ میں ہم کشمیرکی اس عظیم المرتبت شخصیت کوبھولیں گے، اس کی کوئی حد نہیں ہے اور جب تک کشمیر اور کشمیریت دنیا کے نقشے پر ہے گی تب تک شاہ ہمدان ہمارے دلوں پر راج کرتا رہے گا اور ہم ان پر عقیدت کے پھول برساتے رہیں گے۔کشمیر دنیا میں واحد ایک جگہ ہے جہاں اسلام شاہمدانؒ کی برکتوں سے بغیر کسی لڑائی جھگڑا یا زور زبردستی سے پھیل گیا۔ اب اگر عوامی طورپر اس مسئلے کے بارے میں دیکھا جائے گا، تو کوئی بھی جذباتی شخص ان حالات میں بے قابو ہوسکتا ہے۔ علمی معاملے میں ایک نوواد طالب علم سے آپ مناظرہ نہیں کر پائیں گے اور قانونی طور پر section 505 statements conduct to public mischief Indian code کے تحت آپ کی کاروائی ہو سکتی ہے۔ اب رہی بات ’سوچوہے کھاکر بلی حج کو چلی‘، مگر مچھ آنسوں بہانا، بار بار معافی مانگنا ، اوراد فتحیہ پڑھنا حضرت شیخ العالم کے شلوک پڑھنا ۔ اتنی لمبی داڑھی اور اس پر ڈراما بازیْْ۔۔۔؟ پہلے علامہ اقبال پر آپ نے انگلی اٹھائی، پھر کشمیر کے صوفی شعرا کا مذاق اڑایا ، اب محسن کشمیر اولیائے کرام کی شان میں گستاخی اس سے ہمارے آپسی سماجی روابط اور امن و قانون کی صورتحال کے بارے میں کیا کیا خدشات بڑھ سکتے ہیں، وہ متعلقہ سرکاری محکموں اور دینی اداروں کو سوچنا ہوگا۔۔۔؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں