کیسے نکلے گی بھنور سے کشتی ’انڈیا اتحاد‘ کی ؟

رشید پروین ؔ سوپور

وہ جو کہتے ہیں کہ سر منڈواتے ہی اولے پڑے، اس وقت ہمیں وہی حالت ’’انڈیا اتحاد‘‘کی نظر آتی ہے۔ یوں بھی ایک متحد اور منظم پارٹی کے مقابل بھان متی کا گھر جوڑنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔ بی جے پی یہ ہم سب جانتے ہیں کہ ابھی تمام محاظوں پر اپنی بڑھت بنائے ہوئے ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ان کے پیچھے جو ایک ہی نظرئے اور ایجنڈا رکھنے والی کچھ جماعتیں جیسے ویشو ہندو پریشد اور آر ایس ایس کے علاوہ بھی کئی اس طرح کی تنظیمیں ہیں جن کی جڑیں بھارت کے عوام میں اب گہری ہیں کیونکہ انہوں نے زمینی سطح پر دہائیوں جو ذہن سازی اور تعلمی میدان میں کام کیا ہے اس کا ثمر ہے کہ معاشرے پہ ہی نہیں بلکہ معاشرے کے ہر شعبے پریہ ذہن مکمل طور محیط ہے اور آنے والی نسلیں بھی اسی سمت رواں دواں نظر آتی ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں کی اکثریتی آبادی ایک ہی دھرم کے ساتھ جڑی ہو اور بد قسمتی سے ایک طویل عرصے تک بھی سیکولر پارٹیاں بنیادی سطح پر سیکولرازم اور جمہوری اقدار کو نہ تو مربوط اور نہ مضبوط اور مستحکم ہی کر سکی ہوں ۔۔ کے لئے دھرم کی سیاست آساں بھی تھی اور قابل فہم بھی اور دوسری بڑی بات یہ کہ ان کے اہداف بھی صاف اور ان کے سامنے عیاں ہیں جنہیں وہ چھپانے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتی بلکہ اس بات پر فخر کرتی ہے کہ بھارت کو’’ ہندوتا ‘‘کی پہچان ہونا چاہئے۔
بی جے پی نے بھی اپنی انتخابی مہم شروع کی ہے اور ان کا سب سے بڑا ہتھیار ان کا سوشل میڈیا سیل ہے جس پر وہ اپنے سارے خواب بڑی آسانی سے اپنی بڑی مارکیٹ میں فروخت کرتی ہے۔ اس بار بھی انہوں نے اپنی شروعات ایک دس منٹ کے گانے سے کی ہے جس میں مودی کے تمام کارناموںکو سمیٹ دیا گیا ،جو رام مندر سے شروع ہوکر ان تمام سکیموں اور منصوبوں کا احاطہ کرتا ہے اور پھر آگے مستقبل کے بھارت کی ایک جھلک بھی اس میں موجود ہے۔ جس کا تذکرہ مودی جی کرتے رہتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کمال مہارت کے ساتھ عوام کے سامنے ان منصوبوں اور خوابوں کو زمینی سطح پر پیش کرتا ہے جو انتخابات میں وؤٹ کرتے ہیں ۔ مذہبی پہلو سے کاشی سے ایودھیا اور اجین تک ہندو دھرم اور ہندوتا کے لئے مودی جی کے مختلف منصوبوں کو مرکز بنا کر عوام تک پہنچانے کی مربوط کوششیںبھی دلفریب اور خوبصورتی کیساتھ اس میں شامل ہیں جو عوام کو خوابوں کی دنیا میں پہنچاتے ہیں جہاںہر طرف مندر اور گھنٹیوں کی صدائے بازگشت کے سوا کوئی چیز سنائی نہیں دیتی اور زندگی کے روز مرہ مسائل روٹی ،کپڑا ، مکان ، تعلیم صحت تعمیر و ترقی سب پیچھے رہ جاتا ہے۔ رام مندر کا اد گھاٹن جس کی تیاریاں بڑے پیمانے پر ہوچکی ہیں بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی قرار دی جاسکتی ، کانگریس اور دوسری سیاسی پارٹیوں نے کھل کر یہ بات کی ہے کہ یہ بھی سیاست کے ساتھ جڑی ہے نہیں توا بھی یہ مندر تیاری کے مر حلوں سے ہی گذر رہا ہے ۔ دھرم بہرحال عام آدمی کی تمام چیزوں اور ضرورتوںسے عزیز تر ہوتا ہے بھلے ہی اس سے دھرم کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں ہو اور کبھی مندر تک بھی اس کی رسائی نہ ہوئی ہو ۔۔
دوسری طرف انڈیا اتحاد ہے جس کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے اور اس اتحاد کے بغیر کسی بھی طرح بی جے پی کے ہاتھی کامقابلہ کسی بھی سنگل پارٹی کے لئے ممکن نہیں لیکن اس ادراک کے باوجود یہ اتحاد بہت کمزور کچے دھاگوں سے پروئی ہوئی ایک مالا ہے جس کے دانے معمولی جھٹکے سے بکھر سکتے ہیں۔ بد قسمتی سے یہ کشتی ساحل پر ہی ڈگمگانے لگی ہے اور اب اس میں شک ہے کہ یہ کشتی ساحل چھوڑبھی دے گی کہ نہیں کیونکہ اتنے بڑے اتحاد کی سب سے بڑی کمزوری سیٹ ایڈ جسٹ منٹ اور اپنی پارٹی مفادات پر اتحاد کی ترجیح ہوتی ہے جس کے لئے کوئی پارٹی تیار نہیں۔ کانگریس کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ اب بھی اپنی پارٹی کو بڑی اور وننگ پوزیشن میں سمجھ کر دوسری پارٹیوں کے ساتھ تعاون نہیں کر پاتی اور یہی حال کم و بیش دوسری پارٹیوں کا بھی ہوتا ہے۔ مچھر جتنی پارٹی بھی اپنے آپ کو ہاتھی بناکر اتحاد میں شامل ہونا چاہتی ہے ،ظاہر ہے کہ یہ بات قابل قبول نہیں ہوتی۔ اس لئے اتحاد یاتو ہوتا نہیں اور اگر ہو بھی گیا تو ہر پارٹی اپنے مفادات کی ترجیح میں ’’کامن ‘‘نقاط سے انحراف کرکے ایک دوسرے کے لئے شکست کا ساماں پیدا کرتی ہے۔
ابھی ابتدا میں ہی ترنمول کانگریس اور کانگریس کے اختلافات واضح ہوکر منظر عام پر آئے ہیں اور یہ اس اتحاد کی کشتی میں پہلا سوراخ سمجھا جاسکتا ہے ، مغربی بنگال میں پارلیمنٹ کی چالیس سیٹیں ہیں ، یہاں انفور سمنٹ کی ایک ٹیم نے ترنمول کانگریس کے ایک پارلیمنٹ ممبر پر ریڈ کرنا چاہی جس پر حملہ ہوا ، کانگریس نے اس پر یہ موقف اختیار کیا کہ بنگال میں امن و قانون کی صورت حال انتہائی خراب ہے اس لئے وہاں گورنر راج ہونا چاہئے۔ اس کے ردِ عمل میں ترنمول نے اس شخص کو بی جے پی کا ایجنٹ قرار دیا جس سے یہ بیان منسوب ہے۔ دونوں طرف یہ سخت بیانات بہت کچھ کہتے ہیں جس پر کسی تبصرے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ شاید اس تلخ ماحول میںاتحاد کے دروازے ہی بند ہو جائیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ حالیہ ریاستی انتخابات میں مدھیہ پر دیش میں سماج وادی پارٹی اور کانگریس کے درمیان کوئی مفاہمت نہیں ہوسکی تھی ، جس کا فائدہ بھر پور انداز میں بی جے پی کو ملا تھا۔ اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اکھلیش یادو بھی اپنی ریاست میں کانگریس کے ساتھ شاید کوئی مفاہمت کرنے کے حق میں نہ ہو۔ دوسری کئی ریاستوں میں بھی اس طرح کے حالات اور منظر ناموں کا پایا جانا کوئی بڑی بات نہیں۔ انڈیا اتحاد کی کشتی میں کشمیر نشین سیاسی پارٹیاں بھی ہیں جن میں این سی اور پی ڈی پی شامل ہے ، یقینی طور پر ان دونوں کا اتحاد اور انڈیا اتحاد میں رہنا بی جے پی کی صحت کے لئے ٹھیک نہیں ، لیکن مسئلہ یہاں بھی یہی ہے کہ کیا انڈیا اتحاد میں شامل رہ کر بھی یہاں یہ پارٹیاں کسی کامن نقطے پر متحد ہوسکتی ہیں؟ شاید ہی ایسا ہو۔ جموں وکشمیر میں بھی صورتحال اس سے مختلف نہیں،جہاں پانچ پارلیمانی سیٹوں پر انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس وقت ان میں سے دو سیٹیں بی جے پی کے پاس اور تین این سی کے پاس ہیںاور لداخ کی ایک اکیلی نشست بھی بی جے پی کے پاس ہے۔ کانگریس ان ساری نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑا کرنا چاہتی ہے کیونکہ ابھی سے یہ دعوے بھی کر رہی ہے کہ ہم سب نشستیں جیت جائیں گے۔ حیران کُن بات ہے کہ اتنی طویل مدت کے بعد بھی کانگریس کشمیر کے سیا سی نبض سے اس قدر نابلد اور ناآشنا کیسے ہوسکتی ہے ؟،،، اور وہ زمینی حقائق کا ادراک کیوں نہیں کرتی؟
شیخ عبداللہ اور پنڈت جی کا رول کم و بیش کشمیر کے ایک بڑے عوامی حصے کے مدِ نظر ہے، کشمیری عوام دہائیوں کانگریسی سرکار کے زیر سایہ رہ چکی ہیں اور ان سرکاروں کے پیچھے انتخابات کی ایک اپنی کہانی ہے۔ یہ سارے انتخابات سام دام دنڈ کے اصولوں پر ہوئے تھے اور کشمیری عوام اب بھی ان انتخابات کو بھولے نہیں ہیں بلکہ سمجھتے ہیں کانگریس نے دہائیوں کشمیری عوام کو جمہوری حقوق اور بنیادی انسانی اقدارسے محروم رکھ کر انہیں مایوس کیا ہے اور شیخ کی بات یوں کچھ مختلف ہے کہ کشمیری عوام جب تمام پارٹیوں پر ایک نظر ڈالتے ہے تو انہیں لگتا ہے کہ ان کے لئے lesser evil این سی ہی ہے کیونکہ یہ مقامی پارٹی بھی ہے اور اگر کبھی عوام نے این سی کو اقتدار سے محروم بھی کیا تو ان کی حالت وہی ’آسماں سے گرے تو کھجور میں اٹکے‘ والی ہوئی تھی یعنی عوام نے پی ڈی پی کو نعم البدل سمجھ کر اس سے اقتدار پر بٹھانے کی کوشش کی تو اس نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کیا ، جس کا پی ڈی کے پاس نہ تو منڈیڈیٹ ہی تھااورنہ عوام کے لئے قابل قبول ہی تھا۔ یہ تجربہ ناکام ہوا، اس لئے شاید ابھی تک ایک خاصی تعداد پھر ایک بار این سی کو ہی وؤٹ کرے ، اس لئے بھی کہ اب بشمول این سی کسی بھی کشمیر نشین پارٹی کے پاس کچھ نہیں بلکہ ساری کی ساری پارٹیاں تہی دست ہیں، بس اقتدار میں رہنا چاہتی ہیں۔ بہرحال پی ڈی پی بھی کم سے کم دو نشستوں پر کامیابی کی دعوے دار ہے۔ بارہمولہ اور سرینگر کی دو نشستوں کے لئے نئی سیاسی پارٹی الطاف بخاری او ر سجاد غنی لون کی پیپلز پارٹی اتحاد کے لئے کوشاں ہیںاور ذرایع کے مطابق ان میںمشورے بھی ہورہے ہیں ۔ یہ بیل منڈھے چڑھ گئی تویقینی طور پر سخت مقابلے کی صورتحال پیدا ہوگی اور اس ضمن میں انجینئر رشید جو کہ حراست میں ہے کی پارٹی بھی ان انتخابات میں آنا چاہتی ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ اگر یہ ساری پارٹیاں اپنے اپنے بل پر انتخابات میں حصہ لیتی ہیں تو وؤٹ بکھر جانے کا قوی اندیشہ ہے ، جس کا فائدہ بی جے پی کے سوا کس کو ہوسکتا ہے ؟ اس لئے بی جے پی کی بھی یہی سٹریٹجی ہوگی کہ سب پارٹیاں کسی بھی اتحاد کے بغیر انتخابی میدان میں اتر جائیں ، جیسا کہ وہ باقی ریاستوں میں بھی خواہش مند ہے ۔
ان سارے حالات کے پس منظر میں اگر بی جے پی تیسری بار بھی اقتداری خوابوں کی تعبیر زمینی سطح پر دیکھ رہی ہے اور مکمل اعتماد کے ساتھ اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر چکی ہے تو اس میں کسی اچھنبے کی بات نہیں۔اس لئے اتحاد انڈیا کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنی نجی اور پارٹی ترجیحات سے اوپر اٹھ کر متحد اور منظم ہوکر کچھ نقاط پر اتفاق کرکے انتخابات کی کشتی میں سوار ہوکر ساحل چھوڑ کر اپنا سفر شروع کریں۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں