رشید پروینؔ سوپور
اب چھٹے مرحلے کی وؤٹنگ بھی اپنی منطقی انجا م کو پہنچ چکی ہے جہاں لگ بھگ کم و بیش ۶۰ فیصد پولنگ ریکارڑ ہو چکی ہے ، اس مرحلے میں ۸ ریاستوں کے علاوہ مرکز کے زیر انتظام خطوں کی ۵۸ لوک سبھا سیٹوں پر ۸۲۹ امیدوار اپنی قسمت آزمارہے ہیں ۔ یوپی میں ۱۴، ہریانہ میں ۱۰ ،بہار میں ۸ ، دہلی میں ۷ ،اوڈیشہ میں ۶ ،جھارکھنڈ میں اور جموں و کشمیر کے حلقے اننت ناگ ،راجوری میں بھی پولنگ ہوئی ہے۔ یہ بھی عرض کردوں کہ آخری اور ساتواں مر حلہ یکم جون کو ہونا ہے اور ۴ جون کو نتائج کا اعلان کیا جانا ہے۔ اننت ناگ راجوری میں مجموعی طور ۵۳ فیصد شرح کے حساب سے پولنگ ریکارڈ ہوئی اور جو باقی کشمیر کے حلقہ جات سے مما ثلت بھی رکھتی ہے اور مطابقت بھی ۔ پانچویں مر حلے کی وؤٹنگ میں بہار ،جموں و کشمیر لداخ، جھار کھنڈ، مہاراشٹر ،اڈیسہ ،اتر پر دیس اور مغربی بنگال کے علاوہ مرکز ی ز یر انتظام علاقے جموں و کشمیر کے ایک حلقے بارہمولہ میں پارلیمانی وؤٹنگ ہو چکی ہے ، اس مرحلے میں ۴۹ حلقوں میں پولنگ ہونی تھی اور الیکشن کمیشن آف انڈیا کے مطابق لگ بھگ وؤٹنگ کی شرح مجموعی طور پر ساری ریاستوں میں ۶۰ فیصد رہی ہے، جو ماضی کے انتخابات کو دیکھتے ہوئے نارمل ہی کہی جاسکتی ہے لیکن کشمیر کے تینوں حلقوں میں وؤٹنگ ایک مدت کے بعد ریکاڈ کہی جاسکتی ہے۔ اگر چہ اننت ناگ اور سرینگر کے انتخابی حلقے بھی بڑے اہم ہیں اور خصو صاٍ اس تناظر میں کہ یہاں ایک مدت کے بعد اور ایبارو گیشن آف ۳۷۰ کے بعد ووٹنگ ہوئی ہے اور ان پر بھی مرکزی سرکار کی نظریں ہیں ، لیکن ان سبھی حلقوں سے سب سے زیاد ہ حساس وہ حلقہ ہے جس پر مبصرین کی نظریں جمی تھیں، جموں و کشمیر کا حلقہ بارہمولہ تھا جہاں لگ بھگ ۶۰ فیصد پولنگ ریکارڈ ہوئی ہے اور یہ ریکارڈ ۱۹۸۷ کے بعد سب سے زیادہ شرح فیصد ہے۔
سیاسی پنڈت دونوں حلقوں اننت ناگ راجوری اور بارہمولہ کو نہ صرف بغور دیکھ رہے تھے بلکہ اس کی نزاکت کے کئی اور پہلو بھی تھے جو زبردست اہمیت کے حامل ہیں اور اس حلقے میں چند ایک جگہیں ایسی تھیں جنہیں ملی ٹینسی کا گڑھ بھی بڑی مدت تک سمجھا جاتا رہا ۔ زینہ گیر اور سوپور کا علاقہ وہ ہے جہاں پچھلے انتخابات میں محظ کچھ فیصد پولنگ ریکارڈ ہوتی رہی ہے اور تمام پچھلے انتخابات میں وہ پارلیمانی رہے ہوں یا اسمبلی کے ان علاقوں میں گنتی کے چند وؤٹ ہی بیلٹ بکسوں کے مہماں بنا کرتے تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ علاقہ زینہ گیر سے ہی حریت چیئر مین گیلانی صاحب کا تعلق تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان کا اس علاقے پر بہت زیادہ اثر و رسوخ تھا اور یہ صاحب اور جماعت اسلامی الحاق کو مشروط اور تابع رائے شماری کے موقف پر ڈٹے رہے ہیں۔
اننت ناگ یعنی جنوبی کشمیر بھی ایک دہائی تک ملی ٹنسی کی وجہ سے کافی گرم رہا اور یہاں بر ہان وانی ایک مدت تک چھایا رہا،اس لئے دونوں حلقوں کی اہمیت بہت زیادہ رہی ہے۔اس کے بر عکس وہ ٹولے جو مینسٹریم کہلاتے تھے الحاق کو حتمی اور ناقابل تنسیخ قرار دیتے رہے ہیں لیکن دستاویز الحاق کا تذکرہ وہ بھی اپنے پورے ادوار میں کرتے رہے اگرچہ اپنی اقتداری مجبوریوں کی وجہ سے وہی لوگ اس دستا ویز کو عملی طور پر ٹشو پیپر کی طرح جب چاہا استعمال کرتے رہے ہیں۔ عملی طور پر برسہا برس سے یہ سارا علاقہ یعنی حلقہ بارہمولہ اور خصو صاً سوپور جس سے ہنگامہ خیز بستی سے بھی جانا جاتا ہے اگر بھارتی ایجنسیوں کے ریڈ سرکل میں رہا تو کوئی بے وجہ بات نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حلقے پر پرا ئم منسٹر اور مرکزی سرکار کی نظروں کے علاوہ تمام بھارتی ایجنسیوں کی نگاہیں بھی مر کوز رہی ہوں گی اور پولنگ کی یہ شرح ان کے لئے شاید اطمینان کا باعث بنی ہو۔ یہاں اس حلقے سے خود ہی عمر عبداللہ الیکشن فرے میں ہیں اور اس کے مقابل سجاد غنی لون صاحب ہیں۔ایسا سمجھا جارہا تھا کہ مقابلہ ان دو کے درمیان رہے گا لیکن ہماری معلومات کے مطابق اصل مقابلہ انجینئر رشید اور عمر عبداللہ کے درمیان بر پا ہوا ، یہ سب ڈرامائی انداز میں ہوا اور اس کی بڑی وجہ’’ ہمدردانہ‘‘ وؤٹ کے علاوہ انجینئر کی بیباقی اور بات کہنے کی ہمت ہے اور دوسری سب سے بڑی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ عوام نے ماضی میں این سی کو شیخ عبداللہ کی قید اور بیماری میں بھی یہ ہمدردانہ وؤٹ دیا ہے ایسا بر صغیر کے ہر ملک میں ہوتا ہے اور بھارت کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اندرا جی کے قتل کے بعد اسی ہمدردانہ وؤٹ کی وجہ سے کانگریس ایک سونامی کی طرح ہندوستان پر چھائی تھی۔ سو یہ کوئی انہونی بات نہیں ۔جو آ ج اس حلقے اور خصو صاً اس علاقے نے رشید کو وؤٹ دیا ہے جو پابند سلاسل ہیں اور پابند سلاسل ہونے کی وجہ بنی کہ انجینئر نے بظاہر ووٹرس کو اپنی طرف مائل کیا ۔
اس مضمون کا اصل موضوع یہ ہے کہ ریکارڑ توڑ وؤٹنگ کیوں ہوئی ؟ اورکیا عوام نے ۵اگست ۲۰۱۹ کے فیصلے کو قبول کرکے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ ایبروگیشن کوتسلیم کر چکے ہیں ؟ جیسا کہ مرکزی سرکار اس وقت اس کی توضیح کر رہی ہے؟ اور کیا عوام بھی ایسا سمجھتے رہے ہیں کہ ۳۷۰ تعمیر و ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی ؟ کیا یہ وجہ ہے کہ کشمیری عوام نے سمجھ لیا ہے کہ انہوں نے بقول مر حوم عبداللہ کے صحرانوردیوں میں ہی ۷۵ سا ل گزارے ہیں ؟ یا وہ وجوہات ہیں ۔۔ ’ہے کچھ ایسی بات جو چُپ ہوں‘۔
بڑے پیمانے پر وؤٹنگ کی پہلی بڑی اور موروثی وجہ کشمیری عوام کا مزاج ہے ‘۔ ۵ اگست ۱۹ ۲۰کے بعد سے اب تک ان تمام برسوں میں یہ دعویٰ مرکز کی طرف سے روز کسی نہ کسی پلیٹ فارم سے کیا جاتا رہا ہے کہ کشمیر کی تعمیر و ترقی میں ۳۷۰ ایک اڑچن تھی جس سے دور کیا گیا ہے اور بلکہ اس کے بعد کشمیری عوام نہ صرف خوش ہیں بلکہ ان کا فوکس فضولیات اور خرافات کے بجائے تعمیر و ترقی پر ہوچکا ہے۔ اس بات کا لٹمس ٹیسٹ شاید یہی سمجھا جارہا ہے تھا کہ عوام انتخابات میں حصہ لیتے ہیں کہ نہیں ۔اور اگر لیتے ہیں تو کس تعداد میں ،؟ میرے خیال میں اس حلقے کی ۶۰ فیصد پولنگ نے مرکز کو جو پیغام دیا ہے یا مرکز اس ریکارڈ پولنگ کی جو تو ضیح کر رہا ہے وہ ان کااپنا نظریہ اور تو ضیح ہے۔ میں نے اوپر مزاج کی بات کی تھی اس کی ایک واضح مثال سے معاملہ سمجھنا آسان ہے؟ مرحوم بخشی غلام محمد جو جموں و کشمیر کے پرائم منسٹر رہے ہیں، بڑے نبض شناس رہے ہیں، اس کے بارے میں ایسا کہا جارہا ہے کہ ایک بار پنڈت نہرو کے کسی سوال کے جواب میں کہا تھا کہ کشمیر میں میرے ساتھ چالیس لاکھ لوگ ہیں اور اتنے ہی شیخ صاحب کے ساتھ بھی ہیں کیونکہ عوام اسی کے ساتھ ہیں جس کے پاس اقتدار ہوتا ہے‘‘۔ یہ بات ۹۰ کی دہائی میں کنفرم ہوئی جب وادی میں باضابطہ طور نہ کوئی نیشنلی رہا اور نہ کانگریسی بلکہ تمام آبادی ملی ٹنٹنوں کے اور ان کے موقف کی تائید میں پوری دہائی تک کھڑی رہی۔ اس میں کوئی شک نہیںکہ آج بھی بخشی مر حوم کے اس جملے کی اہمیت اور حقانیت بر قرار نظر آتی۔ ظاہر ہے کہ کشمیری عوام کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔
اس سے پہلے کہ حالیہ ریکارڈ پولنگ کی دوسری وجوہات پر بات کریں پہلے جموں و کشمیر کے ۱۹۴۷ سے لے کر اب تک کے انتخابات پر چندضروری اور مختصر سی باتیں کریں گے۔ ۱۹۴۷ سے لے کر اب تک جتنے بھی انتخابات جموں و کشمیر میں ہوئے ہیں ان کے بارے میں تاریخی شواہد واضح طور اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ یہ سب فکسڈ تھے ، فراڈ تھے اور فریب تھے، سوائے ایک الیکشن کے جو جنتا پارٹی کے دور میں ۱۹۷۷ میں منعقد ہوا جب بھارتیہ وزیر اعظم مرار جی ڈیسائی تھے۔ ان انتخابات میں نہ تو بیلٹ بکسوں کو بدلا گیا، نہ ہی ہیر پھیر سے ہار نے والوں کو جیت اور جیتنے والوں کے حصے میں ہار آگئی، لیکن نتائج بالکل بھارت کی مرضی اور منشا کے مطابق آگئے۔ یہ انتخابات اس پہلو سے کافی دلچسپ، حیرت انگیز اور چونکا دینے والے بھی ہیں، لیکن اس کے پیچھے جس حکمت عملی کو روبہ عمل لایا گیا تھا وہ یہ تھی کہ کشمیری عوام کی اجتماعی نفسیات کا فائدہ اٹھایا گیا تھا۔ غور کیا جائے تو یہ ریکارڈ توڑ پولنگ کی دوسری وجہ بنتی ہے کہ کشمیری ہمیشہ مرکز کے خلاف وؤٹ کرتا ہے۔
تیسری سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی نے بہت بڑا دانشمندانہ فیصلہ کیا اور اپنا کوئی امید وار میدان میں نہیں اتارا۔ اگر وہ ایسا کرتی تو انہیں پتہ چلتا کہ یہاں ان کا مقام کیا ہے؟ اور لوگ اب خوش ہیں کہ نہیں ؟ لیکن وہ جانتے تھے کہ کشمیری عوام کس طرح کا رد عمل دیں گے اور انہیں یقیناً شرمندگی اٹھانی پڑتی۔ عوام کو یہ معلوم ہے کہ یہ مینسٹریم پارٹیاں جو اس وقت میدان میں ہیں ان کے پاس بیچنے کے لئے کے لئے کچھ نہیں اور وہ سب یکساں طور پر تہی دست ہیں کیونکہ نہ ۳۷۰ ہے نہ ۳۵اے ، نہ سٹیٹ ہڈ غرض ایسی کوئی چیز نہیں جو کشمیر سے پچھلے ۷۵برس سے جڑی ہو ، اسلئے بھاری تعداد میں وؤٹ کرنا ان کے لئے ایک جشن سے زیادہ کی اہمیت نہیں رکھتا ۔
بھاری تعداد میں اس منظر میں وؤٹ دینے کی ایک اور بڑی وجہ مرکز یعنی بی جے پی کی این سی کو مخالفت ہے ۔تمام باتوںاور فریب کاریوں کو بلا کر بھی کشمیری عوام کے لئے کسی مقامی پارٹی کو وؤٹ کرنا ایک مجبوری تھی اور سب سے زیادہ مخالف بیانیہ چونکہ این سی کا تھا اس لئے پھر وہی بات آگئی کہ عوام نے انہیں بھاری مقدار میں وؤٹ کیا اور میرا اندازہ ہے کہ تینوں حلقوں میں این سی نے لیڈ لے لی ہوگی۔ وؤٹ کی اس شرح کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ وہ لوگ جنہیں علیحدگی پسند کہا جاتا تھا یا جو حریت کے ساتھ وابستہ تھے جن کی تعداد بھی خاصی ہے ، ان لوگوں نے جم کر وؤٹنگ کی ، نہ صرف وؤٹنگ کی بلکہ اپنے فو ٹو گراف بھی وائرل کرائے۔ وؤٹ ڈالنے کی حکمت عملی یہی ہوسکتی ہے کہ وہ بلا کسی ڈر اور خوف کے اپنے اہل و عیال کے ساتھ جینا چاہتے ہیں اور ایک بڑی تعداد ان نوجوانوں کی بھی ہے جو پتھر بازی میں دھر لئے گئے ہیں اور عقوبت خانوں میں دن گذار رہے ہیں ان کے وارثین نے بھی اس بار وؤٹنگ میں دکھا دکھا کر حصہ لیا تاکہ وہ نوجوان کسی طرح سے ان جیل خانوںسے باہر آکر اپنے اپنے گھروں میں رہ کر روزی روٹی کی فکر کر سکیں ۔