33

نئی سیاسی فضاؤں میں اسمبلی انتخابات۔۔۔ پسِ منظر اور پیش منظر

دیر ہی سہی لیکن الیکشن کمشنر نے ۱۶ ۱گست جمعۃالمبارک کو جموں وکشمیر کے سیاسی عاشقوں کو آخر محبوب کے آنے کی خبر دے کر شاد بھی کیا اور ان کے اجڑے دیاروں میں پھر سے نئے چراغ روشن بھی کئے۔ تین مر حلوں میں انتخابات کااعلان ہوا۔ ۹۰ رکنی جموں و کشمیر اسمبلی کے لئے ۱۸ ستمبرکو پہلے مرحلے میں ۲۴ نشستوں کے لئے، دوسرے مر حلے میں ۲۵ ستمبر کو ۲۶اور تیسرے اور آخری مرحلے میں یکم اکتوبرکو ۴۰ نشستوں کے لئے ووٹنگ ہوگی اور ۴ ۰اکتوبر کو ووٹ شماری کا عمل ہوگا۔ دیکھئے کون سے عشاق اپنے محبوب کی گلی گلیاروں میں دیوانہ وار پہنچ کر اقتدار کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر ’تانڈو ‘شروع کریں گے۔ آپ کو شاید یاد ہو کہ سپریم کورٹ نے ۱۱ دسمبر ۲۰۲۳ کو اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ۳۷۰ کا ایباروگیشن آئینی ہے لیکن جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات ۳۰ ستمبر ۲۰۲۴ سے پہلے پہلے کرائیں جائیں۔ سو، ان احکامات پر عمل ہو رہا ہے۔
جموں و کشمیر سپیشل سٹیٹس ۳۷۰ کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الحاق جموں و کشمیر ، مہاراجہ کی دستاویز اور اس کے ہونے نہ ہونے پر اب کسی بھی قسم کی بحث اور خیالات کا اظہار کوئی معنی نہیں رکھتا ،لیکن اس دفعہ کی پر چھائیاں کہیں نہ کہیں اپنے موجود ہونے کا احساس دلاتی رہیں گی اور شاید قصے کہانیوں کا روپ دھار لیں گی، جس کی مختصر کہانی یہ ہے کہ ’مارچ ۱۹۵۱ کو سلامتی کونسل نے ایک قرارداد پاس کی جس کی رو سے ۱۳ اگست ۱۹۴۸ کی پاس شدہ قرار دادوں کو بر قرار رکھتے ہوئے کہا گیا کہ ’’کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک آزاد اور غیر جانبدار رائے شماری کے ذریعہ سے کرایا جائے گا‘‘۔ قرارداد میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ ’’ آل جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس جنرل کونسل کی سفارش پر ایک دستور ساز اسمبلی کی تشکیل اور اسمبلی کی طرف سے کشمیر کے مستقبل اور الحاق کے بارے میں کسی اقدام کی کوشش خواہ وہ ساری ریاست کے بارے میں ہو یا اس کے کسی ٹکڑے کے لئے ،اس طریقہ کار کا نعم البدل تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ خود نیشنل کانفرنس اور بھارت نے اقوام متحدہ کو یقین دلایا کہ یہ اسمبلی الحاق کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہو گی‘‘اور شیخ کی سر براہی میں یہی کشمیری عوام کے ساتھ سب سے بڑا وشواس گھات اور فریب تھااور یہی وہ لمحوں کی خطا تھی جس کی سزا اب صدیوں پر محیط رہے گی۔۔ یہ اب قصے کہانیوں کے سوا کچھ نہیں اور طاقت اپنے قوانین، اخلاق اور ضابطے اپنی مرضی کے مطابق بناتی رہتی ہے ،جس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔۔
نئی حد بندی جو ۲۰ مئی ۲۰۲۲ سے نافذالعمل ہے، کی رو سے جموں کے لئے مزید ۶ نشستوں کا اضافہ اور کشمیر کے لئے ایک نشست کا اضافہ کیا گیا تھا۔ کل نشستوں کی تعداد ۹۰ نہیں بلکہ ۱۱۴ ہے جن میں ۲۴ نشستیں پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے لئے مختص ہیں۔ ۹۰ نشستوں میں سے ۴۳ جموں اور باقی ۴۷ نشستیں کشمیر کے لئے وقف ہیں۔ جموں و کشمیر میں پچھلے انتخابات 2014 میں ہوئے تھے جس میں صرف ۸۷ نشستیں تھیں ۔ انتخابات میں پی ڈی پی نے ۲۸ ، بی جے پی نے ۲۵ اور این سی کو صرف ۱۵ سیٹوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا تھا۔ کانگریس نے ۱۲ نشستیں حاصل کی تھیں۔ بی جے پی اور مفتی سعید کی ڈیموکریٹک پارٹی نے اتحادی سر کار بنائی تھی،جس کی سر براہی مر حوم مفتی محمد سعید کررہے تھے ، لیکن ۷ جنوری ۲۰۱۶ مفتی صاحب کی وفات پر یہ پد مختصر سی مدت کے لئے خالی رہا اور آخر محبوبہ مفتی نے بحثیت چیف منسٹر کے حلف اٹھایا ، لیکن وہ اپنی مدت پوری نہیں کر سکی کیونکہ بی جے پی نے جون ۲۰۱۸ کو اپنا سپورٹ محبوبہ سرکار سے واپس لے کر حکومت گرائی تھی اور اس کے ساتھ ہی تب کے گورنر ستیہ پال ملک نے اپنے ایک حکنامے کے تحت جموں و کشمیر میں گوور نرس راج کا نفاظ عمل میں لایا تھا۔
آپ کو یاد ہوگا کہ ۵ اگست ۲۰۱۹ کے روز ہی ریاست جموں و کشمیر کو دو یونین ٹریٹریوں میں نہ صرف تقسیم کیا گیا تھا بلکہ ریاست کی مخصوص دفعات ۳۷۰ اور ۳۵اے وغیرہ کو بھی ماضی کے دھندلکوں کی نذر کیا گیا تھا۔ آئین ہند میں ان دفعات کے تحت جموں و کشمیر کو ایک اسپیشل سٹیٹس حاصل تھا جس سے اس روز ختم کیا گیا تھا۔ ۳۷۰ اور ۳۵ اے یا یوں کہیں گے کہ جموں و کشمیر کو حصوں میں بانٹنے کے دوران ہی اس بات کے تذکرے ہوئے تھے کہ کشمیر کو سٹیٹ ہڈ’’مناسب وقت ‘‘پر واپس دی جائے گی ۔ ابھی شاید وہ سیاسی منظر نامہ پیدا نہیں ہوا ہے ، لیکن جب ’’سراپامحبوب ہی ہوگا ‘‘ اورتم بِن کہیں کچھ نظر ہی نہیں آئے گا تو وہی مناسب وقت ’سٹیٹ ہڈ‘کی واپسی کاہوگا۔
بہر حال جموں و کشمیر کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیاں الیکشن کے لئے ماہی بے آب کی مانند تڑپ رہی تھیں۔ اب تما م ایسی سیاسی پارٹیاں جن میں روایتی اور پرانی پارٹیوں کے علاوہ کچھ نئی پارٹیاں بھی اپنی قسمت آزمائی کے لئے پر تول ر ہی ہیں ، ان میں سید الطاف بخاری کی ’’اپنی پارٹی‘‘اور جی این آزاد کی ’’آزادڈیمو کرٹک پارٹی ‘‘بھی ہے ، یہ ساری پرانی اور نئی پارٹیاں انتخابات کے لئے اپنا اپنا نریٹو فروخت کرنے کی کوششیں بہت پہلے ہی سے شروع کرچکی ہیں۔ یوں تو پہلے سبھی پارٹیوں کے نریٹواور بیانئے ۳۷۰ اور سپیشل سٹیٹس جو جموں و کشمیر کو حاصل تھا، کے ارد گرد ہی گھومتے رہتے تھے اور سبھی پارٹیاں ان کی حفاطت اور نگہبانی کے لمبے لمبے دعوے کیا کرتی تھیں،لیکن اب ان تلوں میں کوئی تیل نہیں بچا ہے، اس لئے سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی صوابدید کے مطابق اپنے بیانئے مارکیٹ میں لارہے۔ تمام سیاسی پارٹیوں نے انتخابات کی جھلک پاکر زبردست خوشی کا اظہار کیا ہے ، سی پی ایم لیڈر یوسف تاریگامی نے کہا ’’کہ انتخابی اعلانئے نے ووٹرز میں جمہوری حوالے سے اعتماد پیدا کیا ہے ‘‘اگر چہ یہ صاحب صرف اپنی ایک سیٹ نکالنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ کانگریس سیکریٹر ی نر یندر گپتانے کہا کہ ہم الیکشن کے لئے تیار ہیں، یہ بھی کہا کہ عوام الیکشن کا انتظار کر رہے تھے۔
کچھ عرصہ پہلے عمر عبداللہ نے ایک قومی اخبار کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اسمبلی الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے کیونکہ اب کے چیف منسٹر کی پوزیشن ایل جی دفتر کے سامنے فائل کے ساتھ کھڑے رہنے والے چپراسی سے زیادہ کی نہیں ہوگی۔ متن یہی تھا اور میں اس طرح کا چیف منسٹر بننا پسند نہیں کروں گا لیکن حیرت ہے کہ انہوں نے نہ صرف الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ سنادیا بلکہ یہ کہا کہ تین مر حلوں میں انتخابات سیاسی پارٹیوں کے لئے ایک نیا تجربہ ہوگا۔ انہوں نے انتخابات میں حصہ لینے کی وجہ یہ بتائی کہ ’’پا پا‘ فاروق عبداللہ عمر پیری میں ہے اور ان کی صحت بھی نازک ہی ہے اس لئے مجھ پر انتخابات میں حصہ لینے کے لئے دباؤ ہے اگرچہ فاروق عبداللہ ابھی تک شادی بیاہ کی محفلوں میں ٹھیک ٹھاک ناچتے گاتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کسی کے ساتھ ہمارے اتحاد کا کوئی امکان نہیں لیکن ہم آپ کو پہلے ہی بتادیں گے کہ وہ صرف کانگریس کے ساتھ ہی انتخابی اتحاد کرسکتے ہیں کیونکہ پارلیمنٹ الیکشن میں بھی ان دونوں کا اتحاد نظر آیا تھا اور وہ شروع سے ہی نظریاتی طور پر مکمل ہم آہنگ رہے ہیں اور کشمیر الحاق بھی نہرو گاندھی اور شیخ کی ہم خیالی اور دوستی کی وجہ سے پایہ تکمیل تک پہنچا تھا۔ بہر حال ڈاکٹر غلام نبی بٹ نے این سی کی ترجمانی کرتے ہوئے یہ اعلان کیا ہے کہ این سی ۹۰ نشستوں پر ہی الیکشن لڑے گی۔
پی ڈی پی،، ترجمان موہت بھان نے کہا ہے کہ ریاستی درجہ اولین ترجیح ہونی چاہئے تھی کیونکہ کسی کی بھی حکومت بن جائے وہ ایل جی کے وینٹی لیٹرپر ہی زندہ ہوگی اور یہ جمہوریت نہیں بلکہ جمہوریت کی تضحیک ہے ؟۔
یوں بھی اب تک کے کشمیری وزرائے اعلیٰ بڑی حد تک نہ تین میں اور نہ تیراں میں کہیں نظر آیا کرتے تھے ، کیونکہ ہم سب جانتے ہیں اور کشمیر کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ وزرائے اعلیٰ ہمیشہ تب تک ہی بر سر اقتدار رہا کرتے تھے جب تک ان پر مرکز کی نظر کرم رہا کرتی تھی لیکن اب ان نئے حالات میں یہ دیکھنا ہے کہ کیا بی جے پی سرکار میں عوام جمہوری روح اور سپرٹ کے مطابق سر کار بنانے اور اپنے نمائندوں کو آزادی اور مرضی سے چننے کے اہل ہوں گے؟ اور کیا واقعی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا عمل دہرا کر اس معاملے میں بھی نئے کشمیر کی جانب ایک اور قدم بڑھایا جائے گا ؟ یہی وہ کسوٹی ہوگی جو اہم اور کلیدی اہمیت کی حامل رہے گی۔ اپنے ماضی اور کربناک انتخابی عملوں سے جوجموں و کشمیر کے عوام کا بھرم ہی ٹوٹ چکا ہے اس سے بحال کرنے اور اس سے یہ احساس دلانے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ انتخابات منصفانہ اورآزادانہ ہوں اور سرکار کی پالیسی یہی ہو کہ وہ نتائج کو کھلے دل اور ذہن سے قبول کرنے کے لئے تیار ہو ، اور اس طرز عمل سے ذرا سا ہٹ کر سوچنا اور عمل پیرا ہونا مایوسی ، نا امیدی اورکسمپرسی کے احساس کو تقویت ہی پہنچا سکتی ہے جو دیکھا جائے تو مجموعی طور پر قومی مفادات کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی اور مستقبل کے لئے بھی کوئی خوش کن نتائج اور امیدوں کے چراغ نہیںجلا سکتی۔
حالیہ پارلیمنٹ الیکشن کا تجزیہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ این،سی سرینگر اور ساوتھ کشمیر میں لیڈ لے گی اور نارتھ کی پارلیمنٹ سیٹ پر انجینئر نے تو کمال ہی کر دیا تھا ، لیکن پارلیمنٹ اور اسمبلی انتخابات میں عوام کی نہج اور سوچ مختلف ہو تی ہے اس لئے ابھی سے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ عوام کس کے حق میں فیصلہ کریں گے، اس کی واضح تصویر اگلے ایک دو ہفتوں میں سامنے آئے گی ، لیکن ایک بات جو کلیدی اہمیت کی حامل ہے وہ کشمیر نشین سیاسی پارٹیوں کا اتحاد ہے، اگر یہ لوگ اتحاد میں بندھ جاتے ہیں توبی جے پی کے لئے درد سر ثابت ہوسکتے ہیں۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ وادی میں بی جے پی کی کیا حکمت عملی رہے گی لیکن جہاں تک ہماری سوچ کا تعلق ہے بی جے پی ڈائرکٹ شاید ان انتخابات کا حصہ نہ بنے بلکہ پارلیمنٹ انتخابات کی طرح پردوں کے پیچھے رہنے کو ہی تر جیح دے گی کیونکہ سوشل میڈیا، الکٹرانک ، پرنٹ میڈیا،ملازمین کی گہما گہمی اور سکولی بچوں کے ایونٹس، اکثر و بیشترزمینی حقائق سے مختلف ہوتے ہیں اور اس کا احساس پارلیمنٹ الیکشن میں بھی بی جے پی کو تھا اور آج بھی رہے گا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں