20

اہلِ جہاں اِسے کُرسی کہتے ہیں۔۔۔!!

معراج زرگر۔ترال کشمیر
رابطہ: 9906830807

اِس کی نہ تو کوئی آنکھیں نہ ہی کان ، نہ ہی منہ اور نہ ہی کوئی لمبی سی دُم ہوتی ہے۔ ہاں۔۔۔۔۔۔۔ چار ٹانگیں اور دو عدد بازو ضرور ہوتے ہیں۔ چشمِ عیاں سے دیکھیں تو بظاہر ایک معمولی سی اور بے جان (Non-Living) شئے نظر آتی ہے، مگر ہے بڑے کام کی چیز۔ سینگ نہ رکھتے ہوئے بھی اکثر و بیشتر ایسا دھاوا بول دیتی ہے کہ بڑے سے بڑے سانڈ اور بھینسے بھی اِس کے سامنے حقیر و ناتواں نظر آتے ہیں۔کم بخت دودھ بھی نہیں دیتی، لیکن اگر کسی تیز طرار اور کہنہ مشق ماہرِ غذائیت کی ماہرانہ نگاہ سے دیکھا جائے تو اسکاٹ لینڈ یا آسٹریلوی جنس کی جسیم و توانا گائے بھی اِس کے آگے کوئی حیثیت و وقعت نہیں رکھتی۔ کسی عربیء النسل عمدہ گھوڑے کی کیا مجال کہ اِس کے دو لتّے کے سامنے اپنی کسی ہنہناھٹ کا مظاہرہ کر سکے۔ بادلِ نا خواستہ کسی جگہ اگر جم گئی تو تھائی لینڈ یا برمی ہاتھی بھی اپنی جسامت اور گھیراؤ کے ہوتے ہوئے شرم سے پانی پانی ہو جاتے ہیں۔ شیر، چیتے، لومڑی، وغیرہ تو شرمسارِ رفتار ہیں۔ بے چارے گدھے تو کسی فہرست میں ہی نہیں۔ قصّہ مختصر کہ عجائباتِ قُدرت میں ایک عجیب ترین تخلیق ہے۔اہلِ جہاں اِسے ’دِی چیئر‘ یعنی کُرسی کہتے ہیں۔
جہاں بھر کی نادر و دستیاب اشیاء میں یہ چیز عموماً لکڑی کی ہوتی ہے۔ لکڑی کی یہ کرسیاں معمولی اور ادنیٰ درجے کی تصوّر کی جاتی ہیں۔ ایسی قسم بے چارے اساتذہ، کلرک، اکاؤٹنٹ،اور معمولی ملازمان کو فراہم کی جاتی ہیں۔ ہاں اگر کرسی کے دعویداران کا کوئی ’منظورِ نظر لختِ جگر‘ ہو تو اسے اوپر چڑھا چڑھا کر ایک ایسی کرسی فراہم کی جاتی ہے جو باقی ’ذلیل و خوار‘ کرسیوں کے مقابلے میں قدرے مختلف ہوتی ہیں۔ یہ اِس قدر آ رام دہ ہوتی ہیں کی چھُٹی کے وقت بھی اُٹھنے کو جی نہیں کرتا۔ جی چاہتا ہے کہ ہو عمرِ خضر اور تا قیامِ قیامت بیٹھے ہی رہیں۔سنا ہے اور کہیں کہیں دیکھا بھی ہے کہ اب کے شکستہ دل چپراسیوں اور صورتِ الف کھڑے کے کھڑے درباریوں کو بھی لکڑی ہی کی کچھ ایسی کرسیاں دستیاب رکھی جاتی ہیں، جن پہ بیٹھنے کو ’انڈوں پہ آمادہ‘ مرغی بھی ہچکچاہٹ اور عار محسوس کرے گی۔اِن ٹوٹی پھوٹی، ٹیڑھی میڑھی، ہلتی جُلتی، خجل ذدہ، خوار ذدہ، نحیف و ضعیف، قد کی نہ کاٹھ کی ٹھنڈی کرسیوں کی تعداد اگرچہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے، لیکن ’اثر و رسو خ اور پہنچ‘ کے اعتبار سے اِن کا وہ حال ہے کہ بس پوچھو ہی مت۔ کیونکہ اگر پوچھ لیا تو ’درماندہء رہگزر‘ اُس ٹریفک پولیس والے اور ’واصلِ چٹائی‘ پٹواری کو کون سا منہ دکھائیں، جو تین ٹانگوں والی ’یتیم اسٹول‘ دیکھ کر پیچ و تاب کھانے لگتے ہیں ۔کُرسی دیکھ کر شاید مر ہی جائیں۔
اچھی خاصی تعداد ہونے کے پیشِ نظر ’دل کے عارضے‘ میں مبتلا اِن کرسیوں کی اکثر وہ حالت ہوجاتی ہے جو کشمیریوں کی ہے۔ تقدیر کی ماری، جنموں کی کٹی مری، بہکائی اور پھسلائی ہوئی بغیر کسی رحم کے اور عار کے پچھواڑے میں پھینکی جاتی ہیں۔ کسی کی ٹانگیں ٹوٹی ہوئی، کسی کے بازو توڑے ہوئے، کسی کی کمر اور کسی کا آدھا دھڑ ہی بدن سے جُدا۔اب اگر بہ منشائے ذات’ سرکاری ورکشاپ‘ کے کسی ’کاریگرِ زمان‘ کی خاردار نظر کسی ’فالج ذدہ جلی کٹی‘ کرسی پر پڑی تو پھر خیر نہیں۔ پانچ پانچ چھ چھ انچ کے ایسے بے رحم کیل بدنِ ناتواں میں گاڑ دئے جاتے ہیں کہ دور دور تک وحشت وکرب کی چیخ و پکار سننے کو ملتی ہے۔ اور اگر کسی ’ آتش پرست ٹھیکیدار‘ کے ساتھ معاملہ طئے ہوا تو انجام کار آپ خود ہی سمجھ جائیں گے۔
زمانے کی روز افزوں ترقّی اور ارتقاء کے سبب اب اسٹیل اور پلاسٹک وغیرہ کی بھی کُرسیاں بہ آسانی میّسر آتی ہیں۔اِس قسم کی کرسیوں کی تعداد بھی خاصی ہے۔ایسی کرسیاں اسٹالوں، ہوٹلوں، ڈھابوں،بس اڈ وں، پارکوں اور ایسے ہی غیر سرکاری اداروں اور جگہوں پر پائی جاتی ہیں۔اثر و رسوخ اور جان پہچان کے معاملے میں اِس قسم کی کرسیاں بد نصیب ہی سمجھی جاتی ہیں۔کوئی بھی موالی، غنڈہ، چور اُچکّا، شرابی، ڈاکو، کنڈیکٹر، مسافر، بھِک بنگا، ایرا غیرا نتھو خیرا، شیدا حمیدا، سب کے سب اس قسم کی کرسیوں کے ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں کہ دشمن بھی کانپ اُٹھتے ہیں۔ لات، گھونسہ، دھکا، مُکی، کہنی، انگریزی KICK ، کشمیری پریتھ، فوجی دھلائی،اور نہ جانے کن کن واہیات ’پرستتھیوں‘ سے اِن گھسی پٹی، میلی کچیلی، رنگ برنگی، برہنہ اورننگی، خاک آلود، تھر تھر کانپتی کرسیوں کو گذر نا پڑتا ہے۔ اس قسم کی کرسیوں کی عمر اوسطاً کم ہی ہوتی ہے۔ دھول چاٹتے چاٹتے، تیز دھوپ سہتے سہتے ، یخ بستہ ہوائیں برداشت کرتے کرتے، آخر کار یہ داعیٔ اجل کو لبیک کہتی ہیں اور انہیں بغیر کسی کفن د فن کے کوڑیوں کے مول ’کباڑیوں‘ کو فروخت کیا جاتا ہے۔’حضرتِ کباڑی کے عالمِ برزخ‘ میں کچھ دن گزارنے کے بعد انہیں ’Re-cycling ‘ کے ’میدانِ محشر‘ میں منتقل کیا جاتا ہے، جہاں ایک صبر آزما اور اعصاب شکن دور کے بعد انہیں پھر ’دوسرے جنم‘ میں وارد ہونے کے لئے نہ جانے کن کن صورتوں میں ڈھال کر اس قابلِ رحم زمین کے ٹکڑے پر بھیجا جاتا ہے۔
کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے۔ لیکن اگر بوقتِ ضرورت ’بِن بلائے، نان سٹیٹ، آوٹ سائڈر‘ ایک ذہین، شاطر اور قابلِ فخر ’پِتا شری‘ کا بھی انتظام ہو جائے، تو پھر ’ضروری ترمیم اور تراش خراش‘ کے بعد کرسی کی ایک اعلیٰ قسم بازار میں آجاتی ہے جس کو ’نشت گاہ والی کرسی‘ یا Sofa کہتے ہیں۔اس قسم کی کرسیاں عامتہ الناس کے لطف اُٹھانے کی چیز نہیں ہے ۔بلکہ یہ خاص قسم کی کرسی ’دھنسے ہوئے یا دھنسانے والوں‘ کے لئے مخصوص رکھی جاتی ہیں۔ کوئی سلیم العقل اگر اسے ’دلدلی کرسی‘ بھی سمجھے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اِس قسم کی کرسیوں میں ایک خاص قسم کی اسپرنگ ہوتی ہے،جس کی وجہ سے اندیشہ رہتا ہے کہ دھنسا ہوا کبھی کبھی اچانک اُچھل بھی سکتا ہے۔ اُچھلنے کیے لئے کار آمد اِن اسپرنگوں کو چھپانے کے لئے ’اُتارے ہوئے چمڑے‘ اور ’اُدھیڑے ہوئی کھال‘ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کہیں کہیں عمدہ اور آرام دہ نفیس کپڑے کا بھی استعمال کیا جاتا ہے، جسے اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو یہ بھی ’اُتارا ہوا اور پھر چڑھایا ہوا‘ ہوتا ہے۔اس قسم کی کرسیوں کے پاس پھدکنے کے لئے میٹھے کشمیری چاول، دیسی کھانے کا تیل، زعفران، بادام، اخروٹ، سیب کی پیٹیاں، توسے کے شال یا پیپر ماشی کا کوئی عمدہ پیس اپنے بغل میں رکھنا لازمی ہے۔اس قسم کی نشست گاہ والی کرسیوں سے نشست رکھنے کی احتیاط لازمی ہے۔
تاریخِ فرنیچر پر اگر ایک گہری اور مطالعاتی نظر دوڈائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کرسی اچانک ہی کبھی چشمِ ذدن میں باعثِ وجود میں آئی۔ زاہد و عابد، پیر پیغمبر، سنت سادھو، درویش و درماں، سب کے سب یا تو خالی زمین پہ بیٹھتے تھے یا معمولی چٹائی پر۔کہتے ہیں کہ حضرت سلیمانؑ کے پاس ایک تخت تھا۔(مگر سبحان اﷲ۔۔! اسے کرسی تھوڑے ہی کہیں گے)۔مگر ما بعد کے جتنے بھی تخت ہماری نظر سے گزرتے ہیں، اُن کا کرسی کے ساتھ ایک خاص قسم کی رشتہ داری ہونا تاریخ کے اوراق پلٹنے سے ثابت ہوتا ہے۔ جیسے اسکندر کا تخت، اکبر کا تخت، ملکہ برطانیہ کا تخت، وغیرہ وغیرہ۔۔
آخر میں ہم ایک ایسی کرسی کا ذکر کرنے والے ہیں، جسے ’اقتدار کی کرسی‘ کہتے ہیں۔ یہ’ اقسامِ کرسی‘ میں ایک منفرد اور لاثانی مقام رکھتی ہے۔ساخت اور ہیئت کے لحاظ سے بظاہر اس کا کوئی ڈھانچہ اور وجود نہیں ہوتا۔ لیکن مضبوطی، بناؤ سنگھار، نقش و نگار، ٹکاؤ اور پائیداری کے لحاظ سے اس قسم کی کرسی کا کوئی جوڑ نہیں۔ اس کرسی کی سوانح حیات اس قدر وسیع اورطولانی ہے، کہ اس کے بیان کرنے میں کئی دفتر درکار ہوںگے۔ دنیا کا ماہر ترین ’ماہرِ علمِ ترکیبِ اجزائے حیوانات‘ Physiologistیا ’ماہر علمِ جراحی‘ Anatomistبھی اس کے ’اعضائے مخصوصہ‘ جن میں ’غلیظ دِل‘، شاطر دماغ، موٹا شکم، لمبے ہاتھ، جمی ہوئی ٹانگیں، مکّار آنکھیں، بُلٹ پروف پہنے سینہ، سڑے ہوئے بے کار کان، لمبی آنتیں، گاڑھا سفید خون، چرب زبان، وغیرہ کی تشریح نہیں کر سکتا۔وہ شخص بڑا ہی احمق اور نادان ہوگا جو آفریدگارِ عالم کی ایسی تخلیق، قدرت اور صنعت دیکھ کر بے خود اور بے ہوش نہ ہو۔ جو شخص اس کرسی کی کیفیات، عجائبات اور نظارگی پر غور نہ کرے تو وہ نرا حیوان اور نادان ہے۔ بوستانِ معرفتِ اِلٰہی کی سیر کے لئے اس قسم کی کرسی کے متعلق جانکاری ہر عاقل بالغ مرد و عورت پر فرض ہے۔ چونکہ ہم نے عرض کیا تھا کہ اس قسم کی کرسی کا ظاہراً کوئی وجود نہیں ہوتاہے، مگر لغتِ جہاں کو ٹٹولنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اس کا ایک وسیع اور کشادہ باطن ضرور ہے۔ جس کی حقیقت کو جاننا خاصا دشوار اور کٹھن ہے۔ اس کی تفصیل جاننے کے لئے سخت محنت اور ریاضت درکار ہے۔علومِ حسّیہ پر دسترس ہونا از حد لازمی ہے۔
جب سے یہ کرسی معرضِ وجود میں آئی ہے، تب سے جہاں بھر میں اس کے قصّے اور کہانیاں سننے میں آتی ہیں ۔اثر و رسوک کے اعتبار سے اس کا کوئی ثانی نہیں ۔One Man show اور One Man Desision اسی کرسی کے ایجاد کردہ فقرے ہیں ۔ہٹ دھرمی، دوغلاپن، جنجھلاہٹ، لچر پن، نمک حرامی، بے غیرتی، بے ایمانی،لوٹ کھسوٹ، بیک ڈور، آوٹ ڈور، دھوکہ دہی، مار دھاڑ، تشدد، انتقام گیری، جنگ و جدل، کرفیو، ٹارچر، اقرباء پروری اور ایسے ہی لاکھوں دل دہلانے والے اور ڈسنے والے سنپولے اسی کرسی کے دئیے ہوئے انڈوں سے نکلتے ہیں۔نزدیک سے مشاہدہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس کا چہرہ ڈراؤنا اور خوفناک ہوتا ہے۔ڈائن کی طرح پیر پیچھے کو مڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ چڑیل کی طرح دانت نکلے ہوئے،ناخن بڑے ہوئے اور زبان پھٹی ہوئی ہوتی ہے۔ اس قسم کی کرسی کا نظامِ ہاضمہ قدرت کی کاریگری کا ایک شاہکار ہے۔ اکثر و بیشتر ناشتے میں ’گھوس‘، ’اقتصادی پیکیج‘، اور ’بجٹ‘ چٹ کرنا پسند کرتی ہے۔ موٹی موٹی اور تازی بھلی ’گالیاں‘ بھی ہاضمے کے لئے نفع بخش رہتی ہیں۔ مشروبات میں انسانی خون، محنت کشوں کا پسینہ، اور مفت پٹرول راس آتے ہیں ۔ بد ہضمی، ڈکار، جلن، فوڈ پوائزننگ، اینٹھن وغیرہ تو اس کے در پہ نہیں ٹکتی۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں۔شاید اس نے بھی اس کرسی کا نظارہ دور سے کیا ہوگا۔ کیونکہ کافی فالے پر دیکھنے سے یہ کرسی اس قدر حسین و جمیل نظر آتی ہے کہ سیدھا سادھا آدمی آناً فاناً دِلِ عاجز پکڑ کر عشقِ دائمی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔پھر کیا ہے۔ چاہے رب روٹھے یا بابا، گائے بکے یا ڈھابا، عشق کا بھوت سر سے ہی نہیں اُترتا۔نہ جانے کتنے مجنونانِ دہر اور فرہادانِ زمانہ جل بھُن کر خاک ہوئے۔ نہ جانے کتنی لیلاؤں اور شیرنیوں کے ہاتھوں کے ’حنائی رنگ‘ زعفرانی سے کالے پڑ گئے۔مگر شامِ فراق اب نہ پوچھ، نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ کرسی۔اس کرسی کے لئے نہ جانے کتنی جنگیں لڑی گئی، بستیوں کی بستیاں اُجڑ گئیں، شہر کے شہر ویران ہو گئے، بادشاہوں کے تخت و تاج گئے، مہارانیوں کے مہاراج گئے۔ باپ اپنے بیٹے سے دو دو ہاتھ،سالہ اپنے بہنوئی سے نبرد آزما، بھائی بھائی کا کالر پکڑے ہوئے۔ سارے کا سارا ماجرا اسی پردہ نشین چکنی چپڑی کرسی کا۔
اس قسم کی کرسیوں کی تجارت کرنے والوں کے اعداد و شمار سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ ان کرسیوں کے کارخانے دنیا بھر کے ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ وہاں بننے والی کرسیاں قدرے نفیس اور عمدہ ہوتی ہیں۔ بر صغیر و ہند و پاک میں اس قسم کی کر سیوں کے کارخانے ’آلودہ ترین خفیہ مقامات‘ پر نظر آتے ہیں۔ جس کا اثر براہِ راست کرسیوں کی صحت اور ساخت پر پڑتا ہے۔ یہاں اپنے کشمیر میں اس قسم کی کرسیوں کا کوئی کارخانہ نہیں ہے۔ البتہ کچھ چھوٹے چھوٹے ’ورکشاپ‘ ضرور ہیں۔یہاں پہ ان کرسیوں کے’لانے اور سجانے‘ میں یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اس میں بے چاری عوام کا کم ہی ہاتھ ہوتا ہے۔یہ کرسیاں چونکہ باہر سے ہی آتی ہیں، اس لئے ان کے سجانے میں بھی باہر والوں کا ’یوگدان‘ رہتا ہے۔ہاں۔۔ان پہ بیٹھنے والوں میں مقامی لوگوں کا بھر پور تعاون رہتا ہے۔ہمارے یہاں اب ان کرسیوں کی سپلائی کی زبردست مانگ بڑھ گئی ہے۔خیال کیا جا رہا ہے کہ ’سپلائی والے‘ آنے والے چند دنوں میں کسی ’مقامی ورکشاپ‘ سے معاہدہ کرکے کرسیوں کے بحران کا کوئی سدِ باب کرنے میں کامیاب ہوںگے۔ عوام الناس سے استدعاء ہے کہ کرسیوں سے دھیان ہٹاکر آنے والے سردی کے سخت دنوں کی تیاری کرکے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق گرم کمبل یا چٹائی کا بندوبست کریں۔ تاکہ اپنے آپ کو اور اہل و عیال کو کرسیوں اور سردیوں کی مار سے بچایا جا سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں