11

اپنے راجیہ کا ’’وَنے جِییو‘‘

معراج زرگر۔
ترال،کشمیر
رابطہ: 9906830807

دکشن افریقہ اور سرنگیٹی کے مہان جنگلوں کی طرح ہمارا یہ چھوٹا سا راجیہ اُتر ہمالیائی بیلٹ میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں کے منُش، جییو جنتو، بربھکشی، واتاورن، اور اَنِی ورگوں کے کیڑے مکوڑے اور پیڑ پودے دیگر دیشوں اور راجیوں سے الگ آکار کے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں کے جیو جنتوں اور برپھکشیوں کا ویوہار بھی الگ تھلگ ہے۔
جیو جنتوں میں یہاں عجیب عجیب طرح کے پرانی ہیں۔ ان سب کی جنم کنڈلی ایک گُتھی ہے جس کو سمجھنا سب کے بس کی بات نہیں۔ جیو جنتوں میں چند مہا پُرشوں اور مہیلاؤں کو چھوڑ باقی سب کے تربوجوں میں گاس پھوس اور گوبر بھرا رہتا ہے۔ اس لئے اکثر عجیب ویوہار کرتے ہیں۔ اکثر مہیلائیں اور پُرُش کیول بھوجن اور پرجنن کو ہی جیون سمجھ کر آتے ہیں اور مر کھپ جاتے ہیں۔ ان کے جیون اور مرتیو سے کسی کو کوئی اَنتر نہیں پڑتا۔ یہ ایک طرح مانو تو پشوؤں کی ہی ایک پرجاتی ہے۔ یہ اکثر سمے جگالی کرتے رہتے ہیں۔ اور جگالی کے بیچ دُم ہلاتے رہتے ہیں۔ پشوؤں کی طرح ہی ان کے بھی مالک ہوتے ہیں اور وہ انہیں جب چاہیں کسی گاؤ شالہ میں رکھیں یا کوٹ کاٹ کر ماسا ہاری جاتی کو بیچ دیں۔ چمڑے کی قیمت کے لحاظ سے یہ بڑے مہاتوپون ہوتے ہیں۔ اس منش جاتی کے مالک ان کے جنم کے سمے ہی ان کے سینگ کاٹ دیتے ہیں تاکہ بڑے ہوکر یہ سارے منش نیرنترن میں رہیں۔
اس پرکار کی ایک اور پرجاتی مہان ہاتھیوں، جنگلی سانڈھوں اور بھینسوں کی طرح بھوجن کے بھنڈار کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ان کی موٹی توند میں کچھ بھی بھرا رہتا ہے اور یہ بھی بس جیون کا اکثر سمے اپنی توند کو بھرنے میں کٹاتے ہیں۔ ان کے وشال آکار اور بھوجن کی فکر انہیں کچھ بھی ہڑپنے کے لئے اکساتے رہتے ہیں۔ ان کے اپنے پریوار بھی ان ہی کی طرح پرتھوی پر دبڑدوس ہاتھ پیر مارتے رہتے ہیں۔ ان کی مادائیں اپنے اپنے نر کھڈوسوں کی طرح بھوجن کے لئے کسی بھی دوسری پرجاتی کا چیر ہرَن کرسکتی ہیں۔ پراکرتی کا کونہ کونہ ان نر اور مادہ جاتی کے گوبر کی وجہ سے ایک بہت ہی بڑی سمسیا سے جھوج رہا ہے۔ وشو اور ہمارے دیس کے جتنے بھی راشن بھنڈار ہیں، یہ پرجاتی ان بھنڈاروں کے آس پاس ہی رہتے ہیں اور ہمیشہ کھان پان، بھوجن اور پرجنن کی فکر میں رہتے ہیں۔
اوپری جیو جنتوں کے علاوہ یہاں سب سے جیادہ جو جییو اس چھوٹے سے راجیہ میں رہتے ہیں وہ لنگوروں کی ایک خاص پراجاتی ہے۔ یہ لنگور کسی بھی سمے اچانک بغیر کسی کارن کے اچھلنا کودنا شروع کردیتے ہیں۔ اور پل بھر میں دیش ایک پورے جنگل کا واتاورن پیش کرنے لگتا ہے۔ یہ لنگور سڑھے بسکٹ، سڑی ہوئی پھل سبزیاں، باسی روٹیاں، سڑی بریانی کے ڈبے وغیرہ کہیں سے بھی اُچک لیتے ہیں اور کھا لیتے ہیں۔ لنگوروں کی یہ جاتی درختوں، بجلی کے کھمبوں، لاریوں، گاڑیوں، ٹھپ ٹھپیوں پر لٹک جاتی ہے اور کرتب دکھاتے ہیں۔ ان کے کرتبوں ہی کے کارن یہاں کی راجہ پرجاتی کا منورجن ہوتا ہے اور ویہہ ان لنگوروں کے آبھاری رہتے ہیں۔
لنگوروں کی یہ پرجاتی اس قدر باؤلی ہے کہ یہ بھوِشوِہ کے لئے کوئی یوجنا ہی نہیں بناتے۔ ان لنگوروں کے جھنڈ کے جھنڈ، نر اور مادائیں اور ان کے شاوک بس اچھل کود اور اُچک پُچک سے حاصل شدہ بھوجن تک ہی سیمِت رہتے ہیں۔ بُدھی اور جیون کی اَنِی چنوتیوں سے ان کو کوئی لینا دینا نہیں۔ ان کو اگر کوئی دوسری بُدھی مان جاتی سمجھانے کا پریاس کرے تو یہ اُلٹا اسے ہی باؤلا سمجھ کر اس کے ساتھ غلط وویہار کرنے لگتے ہیں۔ آج کل ان لنگوروں کے لئے بسنت کا موسم ہے اور انہیں دُھرلب اور ورگ ورگ کے کھان پان اور موج مستی کے موقع مل رہے ہیں۔ یہ لنگور عجیب طرح کی چیں چیں میں مست ہیں۔ یہ بڑے مکار ہوتے ہیں پرنتو بدھی مان نہیں ہوتے۔ ایک استھان سے دوسرے استھان پر اچھل کر چھلانگ مارنا ان کا خاص کرتویِہ ہے۔ یہ اپنی سیماؤں سے بھی نکل کر کسی دوسرے استھان پر جانے میں ذرا بھی نہیں ججھکتے۔ لنگوروں کی یہ پرجاتی اپنی سنتان کے بارے بھی زیادہ گھمبیر نہیں۔ پراکرتی پر کام کرنے والے سبھی وگیانکوں کا ماننا ہے کہ لنگوروں کی یہ پرجاتی آنے والے سمے میں سنکٹ گریہست ہوسکتی ہے۔
چھوٹے آکار کے کیڑے مکوڑے بھی یہاں کے واتاورن کے حساب سے یہاں کافی تعداد میں موجود ہیں۔ ان کیڑے مکوڑوں کا کوئی مُول مُولِیہ نہیں ہے۔ یہ جیادہ تر پیروں تلے روندھے ہی جاتے ہیں۔ موسموں کے حساب سے ان کی تعداد گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ ویسے بھی ان کی تعداد سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ ان میں کئی طرح کی پرجاتیاں بڑی ڈنک مارو اور جہریلی ہوتی ہیں۔ مدھو مکھی کے پریوار کی ایک پر جاتی بڑی چالاک ہے۔ یہ پھولوں اور پھل پھلیوں سے رس چوس کر شُدھ شھد بناتی ہیں اور اسے اپنی سنتان اور پریوار کے لئے اکٹھا کرتی ہے۔ ان ہی کی ایک اور پرجاتی بھِڑ کی طرح ڈنک مار ہوتی ہے اور ان پر کسی بھی طرح کا وشواس نہیں کیا جاسکتا۔
دریاؤں اور دوسرے پانیوں میں رہنے والے جیو جنتوں میں مگر مچھ، کانٹے دار مچھلیاں، کچھ زہریلے سانپوں کی پرجاتیاں اور کچھ اور ورگ کے جیو پائے جاتے ہیں۔ یہ اس دھرتی کے ندی نالوں اور چھوٹے آکار کے دریاؤں میں رہتے ہیں اور آخر کار ہند مہا ساگر میں اپنا آتما سمر پن کردیتے ہیں۔ یہ پانی میں رہنے والے جییو دریا اور ندی نالوں میں رہ کر اپنے ساتھ تلچھٹ، ریت بجری اور کئی طرح کی انئ دھاتیں بہا لے جاتی ہیں۔ ان پرجاتیوں میں کچھ کچھوے اور سمُدری نیولے بھی ہیں جو اپنے اپنے ویوہار اور کام کاج کو لیکر بڑے سُگھڑ ہیں۔
اس سمے رات ہو چکی ہے۔ اور اس جنگل کے تقریبا سارے جیو جنتو اپنے اپنے پراکرتک واس میں آرام کرنے کے لئے جا چکے ہیں۔ نیشنل جیوگرافک کا اگلا ہندی پراسارن جلد ہی اُپستھِت کیا جائے گا۔ دھنے واد۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں