ڈاکٹر محی الدین زورؔ کشمیری
(Pas toop de zele) Not too much enthusiasm – Charles Maurice
برسوں پہلے کی بات ہے کہ میری ایک طویل ملاقات ایک فلم پروڈیوسر سے ہوئی، تو مختلف موضوعات پر بات ہوئی اور اس بیچ میں انہوں نے اس اہم بات کا انکشاف کیا کہ وہ کچھ مہینے پہلے جاپان گئے تھے اور میرے یہ پوچھنے پر کہ وہاں لوگ سنیما وغیرہ کے کتنے شوقین ہیں، انہوں نے سیدھے لفظوں میں بتایا – بالکل نہیں ہے۔ وہاں کے لوگوں کو ان چیزوں کے لئے فرصت کہاں۔ جہاں میں گیا تھا اس شہر میں، میں نے صرف ایک سنیما گھر دیکھا ۔۔۔
یہاں میں ملک جاپان کے حوالے سے اور چند باتوں کا خلاصہ کرنا چاہتا ہوں، جیسا کہ آپ جانتے ہوں گے کہ جنگ عظیم دوم میں ان کے دو شہروں، ہیروشیما اور ناگا ساکی پر اٹم بم گرائے گئے۔ اس تباہی کے بعد انہوں نے کیا کیا، جہاں وہ بم گرے اس زمین میں چونکہ پھل پھول نہیں اُگ سکتے ہیں، اس لئے وہاں ایسا کچھ آرٹی فشل بنایا گیا تاکہ وہ زخم بُرا نہ لگ جائے ۔ اتنا ہی نہیں اپنے دشمن کو وہ لوگ بھول گئے اور ترقی کی جانب اپنا قدم اس قدر تیز بڑھا دئے جس کی وجہ سے آج کل وہاں کی صورت حال کیا ہے۔ مجھے اپنے ایک عزیز نے بتایا کہ وہ وہاں برسوں تک کام کرتے تھے اور کیا دیکھا کہ جس طرح ہماری چند محنتی گھرانوں کی عورتیں گھروں میں چھوٹے چھوٹے کام کرتی ہیں، جیسے سلائی کڑھائی اور بنیاں وغیرہ بُننا، اس طرح وہاں کی عام عورتیں گھر میں موبائل، ریڈیو یا دیگر الیکٹرانک چیزیں خود بنا لیتی ہیں۔ ہمارے یہاں کی عام عورتوں کا کام ہے سرکاری دفتروں میں گھر کی باتیں اور گھروں میں بیٹھی ہوئی عورتوں کا کام ہے ٹی وی سیریل دیکھنا۔! جاپان یا ایسے ترقی یافتہ ممالک میں فیکٹریاں کیا ہوں گی، وہاں کے پیشہ ور لوگ کیسے ہوں گے۔ اس کے برعکس 1947 ءمیںیہاں بھی کچھ آگ لگی۔ ایک طرف ہندوپاک کا بٹوارہ ہوا اور دوسری طرف پرنسلی اسٹیٹوں پر ان دو ملکوں نے قبضہ جما لیا۔ تب سے لے کر آج تک یہ آگ کبھی بجھ نہ سکی؟
فلم ’پرم ویر چکر ‘ کی شوٹنگ کے دوران مجھے محمد یوسف خان نامی ایک مسلم میک اپ ڈائیریکٹر نے بتایا کہ ہم اپنے گھروں میں فلم دیکھتے ہی نہیں! اس طرح بہت پہلے میں نے کسی کرکٹر کا انٹرویو پڑھا جس میں انہوں نے اس بات کا کھلے لفظوں میں بیان کیا تھا کہ جب تک کسی بھی ملک میں بے وقوف لوگ جئیں گے تب تک ہم فلم والے یا اسپورٹس والے بے شمار دولت کماتے رہیں گے اور ان کے دلوں اور دماغوں پر راج کرتے رہیں گے اور وہ لوگ ہمارے لئے اپنا سب کچھ چھوڑتے رہیں گے۔
ایک روز میرا ایک دوست مجھ سے ملنے کے لئے میرے گھر تشریف لے آیا۔ گاو¿ں میں سڑکوں کی حالت خستہ، ٹریفک کا کچھ اچھا خاصا انتظام بھی نہیں، تو انہیں پاس کے گاو¿ں میں سروس بس سے اُترنا پڑا اور میرا پتہ پوچھتے پوچھتے وہ میرے گھر آ پہنچے۔ اس زمانے میں گوگل میپ وغیرہ ابھی نہیں آیا تھا۔ بیٹھتے ہی وہ اُف اُف کرنے لگے!
میں نے معزرت کی کہ آپ کو یہاں پہنچتے پہنچتے بہت تکلیف ہوئی ہوگی۔ انہوں نے فرمایا کہ یہاں تک پہنچنے میں کچھ زیادہ تکلیف تو نہیں ہوئی ہے، البتہ جب میں بس سے نیچے اُترا اور آپ کے گاو¿ں کی جانب اپنے قدم بڑھائے ، میں نے کیا دیکھا کھیتوں میں ٹینس بال سے کرکٹ میچ کھیلا جا ر ہا ہے اور وہاں تین ہزار کے قریب لوگ اس کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ کیا اتنی بے کاری ہے کشمیر میں خاص کر تمہارے علاقے میں۔۔۔۔؟
کوئی کھیل کھیلنا غلط نہیں ہے، صحت کے لئے اچھی چیز ہے، البتہ ہر بات میں حدِ اعتدال ضروری ہے۔ ایک روز سرسید احمد خان علی گڑھ کالج کے گراونڈ میں نماز ادا کر رہے تھے، انہوں نے جب سلام پھیری، تو دیکھا قوم کے بچے کھیل رہے تھے، مگر حد سے زیادہ ہی اُچھل رہے تھے، جذبات میں آرہے تھے۔ سید نے اپنی ٹوپی سر سے اُتاری اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے لگے، ”اے میرے خدا میری قوم کے نوجوانوں کو بچایئے۔۔۔“
دوستو! آج مجھے کھیل کود اور فلم تفریحات کے بارے میں کچھ بات کرنی تھی، لیکن کیا کہوں پتہ نہیں بیچ میں یہ ساری باتیں کہاں سے آکر ٹپکتی ہیں۔ ویسے میں ایک ماسٹر ہوں اور پتہ ہے ماسٹر کیا کرتا ہے۔ جبھی کسی موضوع پر اسے بات کرنی ہوتی ہے، تو وہ ایک مضموں ضرور سُناتا ہے۔ ایک روز کسی گاو¿ں میں ایک انگریز آیا وہ راستہ بھٹک گیا تھا۔ لوگوں نے اسکول کے ماسٹر کو بلایا تاکہ وہ اس انگریز سے اس کی زبان میں کچھ بات کرے کیونکہ گاو¿ں کے باقی سبھی لوگ اَن پڑھ تھے۔ ماسٹر نے جب فرنگی کو دیکھا تو انہوں نے Thirsty Crow سنانا شروع کیا۔ انگریز بے چارہ تو راستہ معلوم کرنا چاہتا تھا۔ جب ماسٹر اس کی کچھ نہیں سُنتا تھا اور زور زور سے اپنے مضمون کی گردان کرتا رہا، تو فرنگی وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا۔ اب ماسٹر نے اپنی مونچھوں پر تاو¿ دے کر گاو¿ں والوں سے کہا : بھگایا کہ نہیں انگریز کو اپنی انگریزی سے۔ اگر وہ جلدی نہیں بھاگ جاتا تو میں اسے ابھی To The بھی سناتا، تو اس سے وہ اس زمین سے ہی غائب ہوجاتا!
دوستو! آپ بُرا نہ مانئے کہ میں ایک ماسٹر کی عیب چینی کرتا ہوں اس حمام میں ہم سبھی لوگ ننگے ہیں۔ لیکچرار اور پروفیسر صاحبان بھی۔ ہم لوگ بڑے بڑے سمیناروں میں زیادہ سے زیاد ہ وہی تدریسی ڈھنگ کے نوٹس پڑھتے ہیںیا پھر جہاں کسی پروگرام میں چھوٹے بڑے مختلف طبقوں کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، ہم وہی رُک رُک کر ایک ہی بات کو دس دس بار دہراکر لوگوں کی ناحق سمع خراشی کرکے ان کا وقت برباد کرتے ہیں۔ اس لئے میں نے یہاں سوچا کہ کیوں نہ تفریحات اور کھیل کود کے بارے میں کچھ ایسی باتیں ہوں، جوعام روایت سے ہٹ کر ہوں۔ کھیل کود کے بارے میں آپ بہت کچھ جانتے ہی ہوں گے۔ یہ ہماری صحت کے لئے بہت ہی ضروری ہے اور اس کے بہت سارے سماجی فائدے بھی ہیں۔ اسی طرح سنیما، ٹی وی اور دیگر تفریحات بھی عام لوگوں کے لئے خاص کر طلبہ کے لئے بہت ہی ضروری ہیں، لیکن ہر بات میں اعتدال کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر ہم کسی بھی چیز کا استعمال ضرورت مقدار کے مطابق زیادہ کریں گے، تو وہ ہمارے لئے مضر رساں ثابت ہوتا ہے۔ نمک یا کھانڈ بھی اگر ہمارے جسم میں مقدار کے مطابق کچھ زیادہ ہوگا، تو پھر ہم مرض میں ضرور مبتلا ہوں گے۔ کھیل کود، فلم انڈسٹری، ریڈیو، ٹی وی اور اب انٹرنیٹ کچھ لوگوں کا پیشہ ہے اور ہمارے لئے یہ ساری چیزیں کسی حد تک بہت ضروری ہیں، مگر ہوا، پانی اور روٹی کی طرح نہیں ہے۔ ایسی مختلف چیزوں کے لئے ہمیں کافی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔
ہم بارہا اس بات پر سوچتے رہے کہ ملک کی سب سے زیادہ دولت چند ہی لوگوں کے پاس کیوں جمع ہے۔ اس میں فلم اسٹار اور کھلاڈی سب سے زیادہ شامل ہیں۔ اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کا طریقہ دولت کمانے کا صحیح ہے کہ نہیں۔ بھلے ہی کوئی بھی قانون ان کے ذریعہ دولت کو جائز قرار دے ، مگر میرے نظریہ اقتصادیات اور اخلاق کے مطابق یہ صورت ہر گز جائز نہیں ہے کیونکہ وہ لوگ عوام سے پیسہ لوٹتے ہیں اور بدلے میں انہیںمحض تفریح دیتے ہیں، جو کبھی ان کے لئے میٹھا زہر بھی ثابت ہوتا ہے۔ عام لوگوں کی سوچ اپنی جگہ ، حد یہ ہے کہ پاکستان کا مولوی طارق جمیل بھی سلمان خان کو اس بات کے لئے جنت کی بشارت دینے لگا، کیونکہ خانHuman Beingکی طرف سے خیرات کرتا رہتا ہے۔ بہت سارے celebrities منشیات کا کاروبار اور خود ان کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ یہ ویسی ہی بات ہوئی کہ ہمارے یہاں کے کچھ اشخاص لوگوں کو لوٹتے ہیں۔ چرس اور دیگر نشہ آور چیزوں کا کاروبار کرتے ہیں اور پھر مسجدوں، استھانوں کے لئے اچھی خاصی رقم دیتے ہیں۔ یا پھر اپنے یاروں، دوستوں، رشتہ داروں اور ملاو¿ں کو خوب کھلاتے پلاتے ہیں۔ اکشے کمار کشمیر آکر آرمی گُڈ وِل اسکول کو کروڑوں روپے دے گیا تاکہ مودی جی ان کی فلم (جس میں دیش بھکتی کے نام پر پروپیگنڈا چلایا جاتا ہے) کا ٹکس معاف کردے گا۔ اگر انہیں کشمیر میں خیرات ہی دینا تھا تو وہ کسی ٹرسٹ یا فلاحی ادارے کو دے دیتے۔ سرکاری اسکولوں یا گُڈوِل اسکولوں کے پاس پیسوں کی کوئی کمی ہے کیا؟ عامر خان نے بھی پچھلے دنوں لداخ سے اپنی فلم” لال سنگھ چڑا“ کی شوٹنگ ختم کرکے کشمیر کے امر سنگھ کالج میں اس کی بقیہ شوٹنگ کی۔ لیکن سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں وہ لوگ مفت میں اپنی فلموں کی عکس بندی کرتے ہیں۔ کشمیر کے حسن اور موضوع پر عربوں کماتے ہیں ، کشمیر کو اس کے بدلے میں کیا ملتا ہے؟ یہاں کی ایڈمنسٹریشن کسی حد تک عوام، میڈیا بھی ناحق ان چیزوں کے ساتھ انگیج رہتے ہیں اس لئے یہاں سرکار کی طرف سے ایک قانون بننا چاہئے جس کے تحت ہر فلم یونٹ کویہاں شوٹنگ کے لئے پہلے فیس ادا کرنا پڑے اور وہ پیسہ ہماری بہبودی پر خرچ ہو جانا چاہئے۔ حال ہی میں 5 اگست کو جموں کشمیر کے لفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے یہاں نئی فلم پالیسی جاری کی، جس کے اغراض و مقاصد سے
(بقیہ صفحہ نمبر پر)
اس بات کا صاف پتہ چلتا ہے کہ جموں کشمیر کو معاشی طور پر کوئی بہت بڑا فائدہ نہیں ملنے والا ہے۔ صحیح معنی میں دولت produce کرنے کا مطلب ہوا کہ ہم زمین سے اناج اُگائیں گے، زمین سے سونا، لوہا، گیس، دھات، میڈیسن وغیرہ وغیرہ کیا کیا نکالا جا سکتا ہے۔ پھر ان چیزوں کو بڑی بڑی فیکٹریوں میں تیار کیا جاتا ہے۔ اس طرح اس کا م کے ساتھ؛لاکھوں دماغ، مشین، مین پاور جڑ جاتا ہے۔ یعنی ان قدرتی وسائل کو بروئے کار لاکر ایک تو روزگار کے نئے نئے مواقعے پیدا کئے جاتے ہیں اور یہی چیزیں انسان کی ضرورت زندگی بھی ہیں۔ ان ہی چیزوں سے انسان کی فلاح و بہبودی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس راج کندرا کی پونو گرافی سے سماج کو کیا ملا۔ پیسہ تو ان کاموں سے عمران ہاشمی، سنی لیونی جیسے ہزاروں لوگوں کے پاس بہتات سے آتا ہے، مگر وہ لوگ سماج کو تباہی کے سوا اور کچھ نہیں دیتے ہیں!
میں یہاں ایک بار پھر یہی بات دہراو¿ں گا کہ کھیل تفریح ہماری فطرت، ہماری نفسیات اور جسمانی طور پر فٹ رہنے کے لئے بہت ضروری ہے مگر ہر کام میں اعتدال بھی لازمی امر ہے۔ ہمارے یہاں پچھلے چند برسوں سے ان کاموں کی طرف حد سے زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔ جیسے ہمارے تعلیمی اداروں میں کوئی بچہ پڑھنے کے لئے سنجیدہ ہوتا ہے، اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی ہے، اس کے برعکس اگر کوئی بچہ کھیل کود میں زیادہ دلچسپی لے لیتا ہے، تو اس کے لئے طرح طرح کی سہولیات میسر رکھی جاتی ہیں۔ بڑے بڑے سرکاری عہدہ دار، سیاست کار اسے اپنے پاس بٹھا لیتے ہیں اور انعامات و اعزازات سے انہیں نوازتے ہیں۔ بہت قابل بچے کو کوئی بڑی ڈگری لینے کے بعد یہاں نوکری بھی نہیں ملتی ہے، تو وہ مجبوراً عرب ممالک یا امریکہ کی راہ لیتا ہے۔
اسی طرح عوامی سطح پر بھی کھیل و تفریح کا کلچر کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتا ہے جیسے جگہ جگہ ٹورنا منٹ منعقد کئے جارہے ہیں اور ان کے انتظامات بھی سرکاری وغیر سرکاری سطح پر بڑے پیمانے پر کئے جارہے ہیں۔ تماشابین کا دل لبھانے کے لئے بڑے بڑے سیاسی کارندے اور سرکاری افسران آتے ہیں، جن کے پاس ایک سائل یا کسی دانشور سے ملنے کے لئے کبھی وقت ہی نہیں ہوتا ہے۔ اسی طرح بڑے بڑے جمنازیمز میں نوجوان کی کتنی انرجی صرف ہوتی ہے۔ جو لوگ اپنے کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاتے ہیں یا بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہیں انہیں صبح سویرے چھڑی ہاتھ میں لیکر پیدل واک کرلینا پڑتا ہے تاکہ ان کا موٹاپا دور ہو جائے۔
الغرض کیوں نہ ہم ہر چیز کے تمام پہلوو¿ں پر بڑی باریک بینی سے سوچ لیں اور ہم اپنے وقت کا موزوں استعمال کرلیں۔ کسی وقتی فیشن، دکھاوے یا پھر دو چار لوگوں کے created culture کو اپنے اُوپر مسلط ہونے نہیں دیں۔ صحیح علم ہی ہمیں سچا راستہ دکھا سکتا ہے۔!
5 اگست کو جموں کشمیر کے لفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے یہاں نئی فلم پالیسی جاری کی، جس کے اغراض و مقاصد سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ جموں کشمیر کو معاشی طور پر کوئی بہت بڑا فائدہ نہیں ملنے والا ہے ۔