294

پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کی یاد میں


حصہ دوم

ٰیوں تو مناظر صاحب نے کئی افسانے اور ناول لکھے، مگر خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے ایک افسانچہ ”حملہ کے وقت“ لکھا، جو کہ” کہسار“ میں چھپوایا۔ اسکے بعد اس پر اتنا کچھ لکھا گیا، شاید ہی کم از کم برصغیر میں کسی اور زبان کے افسانچے پر اتنا کچھ لکھا گیا ہو۔ میں نے اس افسانچے پرمضمون لکھنے کے ساتھ ساتھ اس کو کشمیر ی زبان کے قالب میں بھی ڈھالا، پھر مناظر صاحب کو بھیج کر انہوںنے افسانہ ”حملہ کے وقت“ تجزئے اور ترجمے (ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دلی 2020 صفحات 176مجلد) نام کی کتاب منظر عام پرلائی۔ جو شاید اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے۔ جس میں اس ایک افسانچے پر لکھے گئے ڈھیر سارے مضامین شامل کئے گئے اور اس کو مختلف زبانوں میںترجمہ کرکے پیش کیا گیا ہے۔
مناظر صاحب کا ایک اور منفرد کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے ”کوروناکال“ پر لکھا گیا لٹریچر جمع کیا۔ اس کے لئے پہلے اس کی سوچ داد کے قابل ہے اور اس کے بعد ان حالات میںجب لوگ النفسی النفسی کر رہے ہیں اور وہ یہاں بھی اردو ادب کو کچھ نیا دینے کی سوچ رہے ہیں۔ اس کے لئے اطراف اکناف میں فون کر رہے ہیں۔ واٹس ایپ میسج بھیج رہے ہیں۔ اور اس طرح ان کی انتھک کوششوں سے لوگوں کو ویکسین کے بدلے میں 2020 کے آخر میں ہی کورونا وائرس افسانچے (صفحات 144) ، کورونا وائرس لطیفے (صفحات 80) معہ تصاویر ۔ کورونا وائرس : منظوم (152 صفحات) تین کتابیں ایک ساتھ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دلی کی وساطت سے منظر عام پر آگئیں۔ افسانچے والی کتاب میں میرا بھی ایک افسانچہ ”کنفشن“ صفحہ 50 پر شامل ہے۔ کورونا کال کے دوران ہماری مصروفیات کیا رہی یہ ایام ہم نے کیسے کاٹے اس پر بھی مناظر صاحب نے ادباءسے مضامین لے لئے، جس میں میرا بھی مضمون ”تلاطم امواج سیزن 2019-20“بیس صفحات پر مشتمل ہے اور موت سے پہلے وہ اسی کی کتابی صورت دینے کی تیاری میں تھے۔ مناظر عاشق ہرگانوی نے اُردو ادب کو بہت کچھ دے دیا۔ ان کی کتابوں کی ایک بہت طویل فہرست ہے۔ تقریباً چھوٹی بڑی 260 کتابیں ان کی طبع ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ ان پر 55کتابیں چھپ چکی ہیں۔ جن میں کچھ تحقیقی مقالے بھی ہیں جو مختلف یونیورسٹیوں میں ان پر لکھے گئے۔انہیں بہت سارے اعزازات اور انعامات سے نوازا گیا۔ ”کوہسار “ جرنل کے 180شمارے بھی منظر عام پر لائے۔ اردو طلبہ کے لئے انہوں نے کئی درسی ڈھنگ کی کتابیں برسوں پہلے لکھی، لیکن آجکل ”مناظر ادب “ (بہ اشتراک پرویز احمد ) کے عنوان سے بھی ایک سیریز مقابلہ جاتی امتحانات کے لئے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس سے دستیاب ہے۔ ان کے لٹریچر کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو کسی ایک میدان میں قید کرکے نہیں رکھا تھا۔ یہاں تک کہ اردو کے ساتھ ساتھ ہندی (15)، انگریزی (3) انگیکا(6) زبانوں میں دو درجن کتابیں لکھیں۔ ان کے شاگرد خاص محمد پرویز نے ان کی تحریروں کو موضوعات اور اصناف کے سلسلے میں یوں منقسم کیا ہے:
”تحقیق، تنقید، تذکرہ، شاعری، افسانہ، افسانچہ، ناول، ناولٹ، ڈراما، مونوگراف، سوانح، بچوں کے ناول اور کہانی، خطوط، ترجمہ، انٹرویو، طنز و مزاح، مکتک، شکاریات، لغت، عروض، سفرنامہ، شخصیت شناسی، اینتھولوجی، یادداشت، لسانیات، ادبی موشگافی، جاسوسی ادب، منظوم خود نوشت، نعت، صحافت، آٹو گراف، منظوم تجزیہ اور تبصرہ وغیرہ۔۔۔۔
شاعری- ماہیا، کہہ مکرنی، کہمن، ہائیکو، تکونی نظم، قطعہ، غزل، عضویاتی غزل، مشترکہ غزل، غزل نما، غزالہ، رینگا، نعت، دوہا، اردو دوہا، گیت، دوہا گیت، دوہا غزل، رعنا، منظوم ترجمہ، منظوم خود نوشت، منظوم تذکرہ وغیرہ۔۔۔۔
تنقید کو لیں تو تاثراتی، سائنٹفک اور نفسیاتی تنقید کے ساتھ ساختیاتی، پس ساختیاتی، رد تشکیلی، امتزاجی، اور تخلیقیت پسند تنقید“۔۔۔ (مناظر عاشق ہرگانوی کے 151 اشعار با تصویر ۔ صفحہ 4-5)
یہاں یہ بیان کرنے کا میرا مطلب ہے کہ مناظر صاحب علم وادب کا ایک ایسا درخشندہ ادارہ تھا،جو کئی برسوں تک discuss کیا جائے گا۔ ان کی کتابوں کو پڑھنے اور پھر الگ الگ طریقے سے ان پر بات کرنے کی کافی گنجائش ہے۔ ہمیں مستقبل میں ان کے تمام گوشوں پر کام کرنا چاہئے۔ پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی نے بہت ساری چیزیں ہی اردو ادب کو ایسی دے دئیں، جن پر کسی دوسرے کی نظر ہی نہیں پڑتی تھی یا دوسرے لوگوں نے انہیں ادبی اہمیت کبھی دی ہی نہیں۔ لیکن مناظر عاشق نے انہیں ہمارے سامنے لاکر ضرور ہمیں ہلا دیا۔ اور اس بات سے ہمیں واقف کردیا کہ ادب میں کام کرنے کے کتنے امکانات موجود ہیں۔ جیسے آپ ان کی کتاب ”اردو ادب میں جوتے“ (2019) دیکھ لیجئے۔ اس تمام لفظ کو لئے 128 صفحات پر مشتمل ایک تحقیقی اور علمی کتاب بنا ڈالی۔ یہاں ہمیں ان کی کی علمی لیاقت اور ادب پر ان کی گہری اور باریک نظر کا صاف پتہ چلتاہے۔
مناظر عاشق ہرگانوی نے current issues پر بھی اچھا خاصا کا م کیا ہے، جسکی ایک مثال ڈاکٹر مدھوکر گنگا دھر کے ناول کا ترجمہ انہوں نے ”بھیگی ہوئی لڑکی“ کے عنوان(2019 صفحات 80) سے کیا ، جو کہ ”لو جہاد“ کے موضوع پر ہے۔ اس طرح مدھوکر گنگا دھر کے دوسرے ناول ”گرم پہلوو¿ں والا مکان “ (2017) کا ترجمہ کرکے اردو کو ریڈیو ناول کے فن سے متعارف کروایا۔ یاد رہے کہ مذکورہ ناول ”آکسیجن سلنڈر کی عدم دستیابی سے اموات“ کے موضوع پر ہے (بد قسمتی یہ ہے کہ مناظر صاحب کی موت بھی اس طرح واقع ہوئی) مناظر صاحب نے اردو کو اس قدر جاپانی صنف ہائیکو دے دئے کہ ان پر ڈاکٹر اسما پروین نے ”مناظر عاشق ہرگانوی اور ہائیکو نگاری“ (2019ء126 صفحات) ایک کتاب مرتب کر ڈالی-اسی طرح نظمیچہ! ثلاثہ (با تصوریر) 2020 جیسے نئے فن کے مناظر صاحب موجد ہیں اس لئے لکھا!
اب ثلاثہ کی میں لایا ہوں کتاب
پاگیا تعبیر دلکش میرا خواب
درد دل کا اس میں ہے سارا حساب
اردو ادب میں انہوں نے کئی نئے نئے تجربے کئے۔ اس سلسلے میں آپ انکے جرنل کوہسار کی فائلیں دیکھ سکتے ہیں۔ ہر کسی بڑے آتھر کی کوئی نہ کوئی مجبوری یا ایک کمزوری ان کی زندگی میں انہیں ستاکر ان سے کوئی ایسا کام کرواتی ہے، جس سے لوگ ان پر کبھی فقرے بھی کستے ہیں۔ میرے کہنے کا یہاں مقصد یہ ہے کہ کوہسار میں معاون کے طور پر ”نینا جوگن“کا جو فرضی نام چھپتا تھا، وہ ایک ادیبانہ تعلی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔مناظر عاشق ہرگانوی واقعی کافی جینئس تھے اور پیدائشی قلم کار تھے۔ اس بات کا ثبوت ہمیں ان کی پہلی کتاب ”میوہ تلخ“ سے ملتا ہے۔ انہوں نے عبدالحلیم شرر کا ایک ادبی ڈراما ”میوہ تلخ“ مرتب کرکے 1970ءمیں نسیم بک ڈپو لکھنو¿ سے شائع کروایا۔ اس کا تحقیقی و تنقیدی مقدمہ بھی لکھا۔ اس وقت وہ ابھی صرف بی اے تھے کہ اردو کے بڑے بڑے محققوں جیسے پرفیسر مسعود حسن رضوی ادیب اور قاضی عبدالودود سے اس ڈراما کے بارے میں بذریعہ خط سوالات پوچھے۔ ان کا رد عمل کیا رہا وہ الگ بات ہے، مگر سوال یہاں یہ کھڑا ہو سکتا ہے کہ آجکل کے بی اے، ایم اے طالب علم کی یہ بات ہی نہیں ، کیا ایک ریسرچ اسکالر ایسا کرسکتا ہے-؟ تب سے ان کا ادبی سفر اور اشاعتی سلسلہ جاری رہا۔
مناظر صاحب کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ اگر میں ایک ہی صنف پر کام کرتا، تو شاید میری کوئی خاص ادبی Image بن جاتی۔ لیکن میں نے انہیں یہ مشورہ دے دیا کہ ایسا وہ لوگ کرتے ہیں جن میں کسی اور صنف میں اپنا لوہا منوانے کی ہمت یا صلاحیت نہیں ہوتی ہے۔ اگر آپ کو اللہ نے یہ تمام تر صلاحیتیں دے دیں ہیں، تو انہیں آپ ہر قیمت پر بروئے کار لاتے رہئے۔ پھر فیصلہ اُس نیک ذات پر چھوڑ دیجئے۔ویسے بھی جو تخلیقی کربناکی آپ میں ہوگی، اس کو آپ کیسے روک سکتے ہیں۔ ادھر مطالعے کے آپ عادی ہیں، تو تحقیقی و تنقیدی کام کرنے کے لئے آپ حالات سے مجبور ہیں۔ اس لئے مناظر صاحب آپ جیسے ہیں، ویسے ٹھیک ہیں۔ آگے بڑھئے ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
(جاری)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں