264

کشمیر میں سرکاری کارندوں کی کارستانیاں اور عوامی ذمہ داریاں؟

I’ve got a little list – I’ve got a little list of society offenders who might well be under gound And who never would be missed – who never would be missed. W-S. Gilbert (The Mikado)
حال ہی میں اگرتھلا کے ایک ڈی ایم (ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ) کا ایک ویڈیو وائرل ہوا۔ اُس کا نام یہاں لینا اس لئے مناسب نہیں ہے، کیونکہ اخبار کا یہ عوامی کاغذ ان کے نام سے گندہ ہو جائے گا، اور اس کے کالے کرتوتوں پر اس لئے ایک نظر ڈالی جائے گی کیونکہ وہ کسی کورونا بیماری سے کم نہیں ہے اور اگر ان کا علاج بروقت نہ کیا گیا، تو نہ جانے ایسے سرکاری غنڈے کب تک شریف النفس عوام کا جینا حرام کرتے رہیں گے!
وہ مغرور ٓافیسر رات کے وقت دورے پر نکلا، حالانکہ اپنے عہدے کے مطابق اسے یہ دیکھنا تھا کہ کہیں کوئی مظلوم کسی ظالم کے چنگل میں تو نہیں پھنسا ہواہے، لیکن وہ شادی کے ایک منڈپ میں مست ہاتھی کی طرح گھس گیا اور اپنے لاو¿ لشکر کے ساتھ احمد شاہ ابدالی کی طرح پوری محفل کو روند تا گیا۔ پنڈت کو مارا، دولہے کا سہرا مار مار کر گرا دیا۔ عورتوں کے ساتھ بدتمیزی کی، معزز مہمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا۔ دولہن کو دھمکایا۔ ان کی بدتمیزی کی حد یہ ہے کہ ہر کسی کو گالی گلوچ دینے لگا۔ یہاں تک کہ اپنے ہمراہ بڑے بڑے آفیسروں کو بھی ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ گالیوں کے گھونٹ پلاتا رہا۔ گھر کے ذمہ دار افراد ڈاکٹروں کو ”دیہاتی دیہاتی“ کہہ کر پکارا۔ جب صاحب خانہ نے متعلقہ سرکاری محکمے کا اجازت نامہ دکھایا، تو اس کو پھاڑ کر ان کے منہ پر دے مارا۔ گئے رات باراتیوں نے کھانا وہیں پر چھوڑ کر وہاں سے بھاگنا چاہا، تو ان کے موٹر روک کر انہیں وہیں پر جیل بھیجنے کے لئے دھمکاتا رہا۔ یعنی دل دہلادینے والا وحشت ناک منظر create کیا۔ ان کے کلام میں گالیوں اور دفعات کے نمبرات کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔!
مان لیا آج کے حالات میں اس طریقے سے شادی کرنا قانونی طور پر جرم ہے، مگر انہیں اجازت نامہ قانون نے ہی دیا تھا۔ اب آپ ضلع کے مجسٹریٹ ہیں، تو آپ اس کی چھان بین کر سکتے تھے۔ جہاں قانون کی عدولی ہو رہی ہیں وہاں سزا بھی مقرر ہے۔ اور ایک مجرم کو بھی نہ اس طرح زدکوب کیا جاتا ہے اور نہ کسی کو سرعام بے عزت کرنے کا کوئی قانون آئین میں موجود ہے۔ اگر ایک خطرناک مجرم کو میڈیا کے سامنے یا عدالت میں نقاب پہن کے لیا جاتا ہے، تو یہ سرکاری غنڈہ گردی کہاں جائز ہے۔ کیا ڈی ایم ہی سب کچھ ہے؟
12مئی 2021 کو بارہ مولہ کے لوگ عید کی تھوڑی بہت تیاری کر رہے تھے کہ وہاں کے اسسٹنٹ کمشنر بازار میں نمودار ہوئے اور انہوں نے بے تحاشہ عوام کو خود لاٹھی سے پیٹنا شروع کیا جس میں بچے، بوڑھے اور عورتیں بھی شامل ہیں۔ اتنا ہی نہیں ایک کشمیر پنڈت جوکہ سرکاری حکم نامے کا پالن کرتے ہوئے اپنی ایسنشل بینک ڈیوٹی پر جا رہے تھے اس کو بھی لہو لہان کیا گیا، پتا نہیں مذکورہ سرکاری کارندہ اپنے آپ کو کونسا طوفانی میل سمجھتا تھااور یہ قوانین کہاں بنائے جاتے ہیں اور ان لوگوں کا کوئی پوچھنے والا کیوں نہیں ہے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ اگر آپ کوئی بڑا کرائم کرنا چاہتے ہیں، تو آپ وہ سرکاری لباس میں ہی سر انجام دے سکتے ہیں۔
قانون، قاعدے اور سرکاری عہدہ داری، یہ ہر کہیں یکساں ہیں۔ بس اپنے اپنے کلچر کے مطابق ان میں کہیں کہیںتھوڑا بہت فرق ہوتاہے۔ قانون ہماری حفاظت کرتا ہے اور ہر کوئی سرکاری عہدہ دار عوام کی خدمت کے لئے ہوتا ہے۔ اس چیز کو عوام، سرکار یا سرکاری عہدہ داروں کو ٹھیک طرح سے سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہم لوگ ان کو سمجھنے سے قاصر ہی ہیں یا پھر جان بوجھ کر انجانے بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر سرکاری عہدہ دار سنتری سے منتری تک ان کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ اور عوام بھی سادہ لوح نہیں ہوتے ہیں۔ جہاں انہیں عوام یا سرکار کے لئے کچھ معمولی قربانی دینی ہوتی ہے یا پھر ان کا لوٹا ہوا مال کبھی سرکار واپس لینا چاہتی ہے تو ہم لوگ یکدم قانون ، انصاف ، حق ہمارا اور نہ جانے کیا کیا چلاتے رہتے ہیں۔ اور سرکار کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ اس طرح برسوں تک عوامی ترقی رک جاتی ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے، اسپتال، سڑکیں، پُل وغیرہ ہماری خود غرضی اور آپس من مانی کی وجہ سے نہیں بن پاتے ہیں، کیونکہ اس چیز پر قانون نے اسٹے دے رکھا ہے اور فلاں علاقے کے لوگوں نے سڑک وغیرہ بننے نہیں دے دی، بہانہ بنایا جنگلات سبز سونے کا نقصان ہو رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس تناظر میں اگر ہم کشمیر میں عوامی اور سرکاری غنڈہ گردی یا پھر قانون، اقتدار اور طاقت کے حوالے سے بات کریں گے، تو یہاں نہ جانے ہم روز کتنے باراتیوں کو پٹتے دیکھتے ہیں۔ اور قاعدے قانون پر چل کر ہم نے کب اپنے قدم رکھے ہیں۔ یہی اصل وجہ ہے کہ ہم وہیں پہ ہیں، جہاں ہم پچھلے کئی برس پہلے تھے۔ یہاں مختلف لوگوں کے لئے مختلف قانون ہیں اور ہم یہاں کے عوام کو کبھی بھی پارسا ہونے کی سرٹیفیکیٹ نہیں دیںگے، بلکہ ہم نے ہر کہیں ہر وقت خود اپنے لئے خندق کھود ڈالے ہیں۔ جس شاخ پر خود اپنا آشیانہ بنا رہے تھے، اس کو کاٹ ڈالا۔ اب ایسے گرے کہ ہماری ہڈیوں کو جوڑنے والا بھی کوئی نہیں ملے گا۔ ہم ہمیشہ ”بارہ قلی تیرہ میٹھ“ بنتے رہے۔ کبھی مسلکی بنیاد پر، کبھی مذہبی بنیاد پر، کبھی شہری دیہاتی، کبھی ذات پات اور خاندان اور کبھی اور کچھ!۔
کسی نے قوم کے لئے، اپنے کشمیر کے لئے کبھی سوچا بھی نہیں، البتہ ہمیشہ اپنے ہی لئے سوچتے رہے اور دوسروں کو لوٹتے رہے۔ بھلا ہم ملک یا پھر پورے عالم کے بارے میں کیا سوچیں گے۔! ایسے مسئلوں میں الجھائے گئے کہ ہمارے ذہن سوختہ ہو گئے۔ خیر یہاں ہماراصل موضوع تھا کہ ہمارے سرکاری عہدہ دار کیسے کیسے غنڈہ گردی کرتے ہیں۔ وہ عوام کے زخموں پر مرہم پٹی کے بدلے میں کیسے نمک مرچ چھڑک رہے ہیں اور یوں تو ہر آئین میں قانون ہر شہری کے لئے یکساں ہوتا ہے، جبکہ اس کی عملی صورت ہمیں یکساں نظر نہیں آتی ہے۔ شروعات میں جو ہم نے حقیقی اسٹوریاں یہاں رقم کی ہیں ایسی لاکھوں اسٹوریاں کشمیر کے گھر گھر کی ہیں، جن کے کردار یہاں کے ہر طبقے کے لوگ ہیں۔ چونکہ ہم نے ابھی ابھی ہیلنگ ٹچ کی بات کی ہے اورکشمیر میں ہیلنگ ٹچ دینے کا بھی منفرد انداز ہے، وہ بھی چند مخصوص لوگوں کو بڑے منفرد انداز میں دیا جاتا ہے ۔ جیسے بھوپال گیس ٹریجڈی میں مارے گئے افراد کے لواحقین کو معاوضہ ابھی بھی نہیں دے دیا گیا، اسی طرح کشمیر میں کئی دلدوز واقعات کی فائلیں نہ جانے کن سرد خانوں میں پڑی ہیں۔ مگر ہمارے ایک چیف منسٹر صاحب نے ایک ایسی فائل کھولی، جس میں کچھ افراد نے سرکار کے ساتھ بہت بڑی جعل سازی کی تھی۔ انہیں پھر کورٹ کے حکم کے مطابق سرکاری نوکریوں سے برخواست کیاگیا تھا۔ تو اس طرح انہوں نے اپنی عمر کا پیشتر حصہ مختلف کاموں میں گزارا، موصوف سی ایم صاحب کی باز جیسی نگاہ اس فائل پر پڑی، جس میں بیشتر نام ان کی ذات برادری کے لوگوں کے ہی تھے۔ یکدم معاملے کو رفع دفع کیا اور انہیں اپنی اپنی نوکریوں پر بحال کیا اور ان کی اس طویل وقفے کی تنخواہ بھی واگذار کردی، سروس بھی ،یہاں تک کہ ایک حکم نامہ بھی ان کے محکموں کو جاری کیا جس میں لکھا گیا ہے کہ اگر ان افراد کو کوئی فرد ان کے پاسٹ کے متعلق کچھ بھی پوچھے گا جس سے ان افراد کو بے عزتی کا احتمال ہے، تو اس شخص کے خلاف کاروائی کی جائے گی، اسے کہتے ہیں باعزت بھری۔۔۔
میرے ایک رفیق ڈاکٹر دلاور ڈار نے مجھے بتایا کہ انہوں نے بڑے بڑے امیروں، بلڈروں، ٹھیکہ داروں اوردلالوں کی پارٹیوں میں بڑے بڑے سرکاری آفیسروںکو ان کے پیالے چاٹتے ہوئے دیکھا ہے اور وہ لوگ منسٹروں یا اس قسم کے دیگر سیاست کاروں کے سامنے بھیگی بلی بنتے ہوئے دیکھا۔ ان کی گالیاں، ا ن کی بے عزتی سہتے ہوئے دیکھا۔ اب اگر ان کے دفتر میں کبھی کوئی شریف النفس، عزت دار، پڑھا لکھا یا پھر غریب، مفلس، لاچار سائل آئے گا، تو اس کے سامنے وہ چنگاڑتے رہتے ہیں۔ میرے ایک اور دوست ڈاکٹر معصوم مرزا کا کہنا ہے کہ ایک بار ان کی پنچایت الیکشن ڈیوٹی اپنے ضلع کے ایک پسماندہ علاقے میں لگائی گئی۔ تو اس سلسلے میںانہیں تقریباً ایک مہینے وہیں قیام کرنا پڑا۔ تو حسب دستور انہیں گاو¿ں کے نمبردار کے گھر میں رہنا پڑا۔ اس دوران شام کے وقت گاو¿ں کے لوگ اس کے پاس آکر گاو¿ں کے معاملات پر بات چیت کرتے رہتے تھے، تو ایک دن انہوں نے ان پنچایت امیدواروں سے امتحان لیکر پوچھا کہ آپ کیوں اس الیکشن میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ ان میں ایک امیدوار بولا کہ اس گاو¿ں پر صدیوں سے ٹھاکروں (کشمیری میں کھڈپینچوں) کا راج ہے، ہمیں ان کی مرضی کے مطابق جینا پڑتا ہے۔ اب اس کو ہم ختم کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرے نے بولا اس گاو¿ں یا دوسرے گاو¿ں میں بھی ایسے چند لوگ ہیں، جن کے ہاتھوں ہماری عزت اور سب کچھ نیلام کیا جاتا ہے اور ان کے پیچھے سرکاری اور نہ جانے کیا کیا power ہے۔ اس سے ہمیں آزادی چاہئے۔ باقی بجلی، پانی، سڑک اور دیگر ترقی کے لئے بھی ہم کوشش کریں گے۔ سرکار کا فائدہ ہر کسی کو ملنا چاہئے، نہ کہ آج تک جیسا یہاں ہوتا رہا۔!تو اس طرح انہوں نے ایک ایسے دلال کے کالے کرتوتوں کا پردہ یوں فاش کیا۔
ایک روز اس نے ایک شخص سے بوٹ، پتلون اور جاکٹ مانگا اور کہا کہ مجھے شہر جانا ہے میرے پاس کپڑے نہیں ہیں، اس سادہ لوح شخص نے یہ سب کچھ دے دیا۔ دوسرے دن تھانے سے بلاوا آیا اور الزام یہ تھا کہ تمہیں اس شخص نے رنگے ہاتھوں بدکاری کرتے ہوئے پکڑا تھا، ثبوت آپ کے کپڑے اور جوتا تھانے دار صاحب نے ڈانٹتے ہوئے کہا۔ میں نے انہیں پوچھا کہ یہ تھانے دار صاحب کون ہے۔
وہی جس کے ساتھ اس کایارا نہ ہے۔ صاحب وہ دلالی کرتے ہیں۔ جیسے پہلے دو گھرانوں میں پھوٹ ڈال کر انہیں لڑواتا ہے۔ پھر ایک کو تھانے لے جاکر دوسرے کے خلاف رپورٹ لکھواتا ہے۔ تو اس طرح ملزم کو گرفتار کرواکر اس کے پاس بھی جاکر اس سے ہمدردی جتلاتا ہے۔ تھانے کے پاس ہی ان کا دوسرا دوست رہتا ہے۔ وہاں سے ملزم کے لئے کھانا وغیرہ آتا ہے۔ اس کو یقین آتا ہے کہ یہ میرا ہی ہمدرد ہے۔ اور اس طرح تھانے دار سے مل بیٹھ کر وہ دس بیس ہزار میں سارے معاملے کو نپٹا تا ہے۔ اس میں کچھ اپنے لئے اور کچھ اپنے دوست ڈیرے والے اور باقی تھانے دار کے جیب میں چلا جاتا ہے۔ صاحب ان کا یہ دھندا ہے۔ الغرض ہمارے پاس فی الحال ڈسکس کرنے کے لئے مولویوں کی طرح خراسا کی باتیں نہیں ہیں بلکہ سرکاری عہدہ دار بھی ہم ہی ہیں اور ظلم و زیادتی کے شکار بھی ہم ہی ہو رہے ہیں۔ بیچ میں دلالی کرنے والے بھی ہم ہی ہیں۔ قانون آسمان سے اتری ہوئی کوئی شے نہیں ہیں۔ کیوں نہ ہم سبھی لوگ اپنا اپنا احتساب کرلیں گے۔خود اچھی طرح جئیں گے اور دوسروں کو بھی اچھی طرح جینے دیں گے۔۔۔۔!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں