ڈاکٹر محی الدین زورکشمیری
گورنمنٹ ڈگری کالج نوا کدل سرینگر کشمیر
آخری قسط
باقی جب آپ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر زیادہ سے زیادہ لکھیں گے، تو قارئین، ناقدین، محققین، طلبہ اور ریسرچ اسکالرس خود بخود اپنے اپنے فیلڈ میں آپ کو تلاش کریں گے۔ میری ان باتوں سے مناظر صاحب مطمئن ہو گئے اور ان کے دل سے وہ مایوسی دور ہوگئی۔! ادب میں گھوسٹ ازم (1997)، عضویاتی غزلیں (2010)، اردو میں بچوں کا ادب، انتھولوجی (ساہتہ اکاڈمی)، لسانی لغت (کنی ایڈیشنز) ہم عصر اُردو رسائل جائزہ (2014) نظم معریٰ اور نظم آزاد کی ہیتیں(2015) ایک سو ایک خواتین تنقید نگار (2019۔ صفحات 328) اکیسوی صدی کے ہم عصر اُردو رسائل (2019 صفحات304) جیسی کتابیں اُردو ادب میں Reference کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ 2020 ءمیں ان کا ایک ناولٹ ”آتشی لمس کے بعد“ منظر عام پر آگیا۔ جس پر ابھی تک ناقدین کی نظر نہیں پڑی اور انشاءاللہ اس پر بھی ایک مقالہ ضرور لکھوں گا کیونکہ اس ناولیٹ میں مناظر صاحب نے موضوع کو اس انداز میں پیش کیا ہے جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس میں لسیبیان بیان ہے، گینگ ریپ اور مرڈر ہے۔ مگر ان سارے سماجی Evils کے پیچھے کو ن کون سے عوامل شامل ہیں کہیں نام کی ماڈرنٹی وغیرہ کا رجحان پیدا ہوا ہے۔ دنیا میں فیمینزم کا بلند بانگ نعرہ دیا جاتا ہے۔ کہیں ہمارے سماج کو یہ ایک زہریلا انجکشن تو نہیں دیا جا رہا ہے اور ہم اس کے شکار روز ہوتے جاتے ہیں، غرضیکہ اسی تناظر میں ہم اس بے باک ناولیٹ کو دیکھ سکتے ہیں۔
مناظر صاحب کو میں با ر بار کشمیر آنے کی دعوت دیتا تھا، مگر وہ ہر بار منع کرکے کہتے تھے کہ اب ہمارا یہ وقت نہیں رہا کہ ہم گھر سے باہر نکلیں گے ، کیونکہ گھر میں آپ کی آنٹی کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔ بچے اللہ کے فضل و کرم سے فارن میں سیٹل ہیں اور بیٹی اپنے گھر میں ہیں، ادھر حالات بھی صحیح نہیں ہیں۔ ویسے میں کشمیر 17 بار آچکا ہوں۔ خاص کر مظہر امام جب ریڈیو کشمیر سرینگر کے ڈائیریکٹر تھے۔ جے اینڈ کے اکیڈیمی آف آرٹ اینڈ لنگویجز کے رسالوں ”شیرازہ“ اور ”ہمارا ادب“میں ، میں چھپ بھی چکا ہوں۔
یاد رہے کہ اکیڈمی نے ’چنار رنگ‘ (صفحات480) کے نام سے جو کتاب بشیر اطہر سے 1987ءمیں کشمیر کے بارے میں لکھی گئی نظموں کا ایک مجموعہ ترتیب دلوایا تھا، اس میں مناظر صاحب کی نظم ”کشمیر آکر“ صفحہ409-10 پر شائع کی گئی۔
1978 ءمیں پہلگام کشمیرکے ایک ہوٹل میں انہوں نے اپنا ناولٹ ”آنچ“ صرف دو رات میں لکھا ۔ 2019ءمیں ہمارے کالج میں NCPUL کی طرف سے ایک یاد گاری خطبے کا پروگرام تھا۔ جس میں مناظر صاحب کی آمد متوقع تھی، مگر پرنسپل صاحبہ نے ایسے پروگراموں میں ہمارے ساتھ تعاون نہیں کیا، تو پھر مناظر صاحب سے ملنے کا خواب میرا ادھورا ہی رہا۔
مناظر صاحب جیسے لوگوں کے نقش قدم پر چل کر میں نے بھی ایک چھوٹی بستی بسائی اور اس طرح ایسے لوگوں سے ہمارا رابطہ قائم رہتا ہے۔ میں نے اس سال کے اوائل میں اپنے رسالے ”دبستان علم و ادب“ شمارہ 11 کا انتساب ان کے ہی نام معنوں کیا۔ چونکہ میری کچھ اور کتابوں کی آمد تھی، اس لئے میں نے سوچا کہ کیوں نہ انہیں ایک ساتھ یہ تمام ڈاک بھیجی جائے۔ کتابوں، رسائل اور اپنے اخبارکا ایک ایک پلندہ مناظر صاحب کے نام رکھا جائے۔ اس بیچ میں کچھ کالج کی ذمہ داریاں، کچھ گھر کی، اور پھر کچھ ناحق پریشانیاں بھی ہوئیں۔ جس کی وجہ سے میں انہیں وہ ڈاک بھیج نہ سکا۔ مگر فون پر بات ان کے ساتھ ہمیشہ ہوتی رہتی تھی اور ہم نئے نئے کاموں کا منصوبہ بنا رہے تھے کہ اچانک 10 اپریل 2021 سے انہوں نے میرا فون نہیں اٹھایا، یا پھر ان کے موبائل کا سیوچ کبھی بند آرہا تھا۔ تو میں جان گیا کہ شاید کچھ گڑ بڑ ہے۔ 14 کو میں نے فون کیا اور کچھ دیر بعد انہوں نے کال بیک کرکے مجھے بتایا کہ میں دوچار دنوں سے بیمار ہوں۔ اپنا علاج معالجہ کروا رہا ہوں۔ میں نے انہیں ہمت دے کر بتایا کہ اللہ سب خیر ہی کرے گا۔ اپنی صحت کا خیال کیجئے ۔ میں نے مناسب سمجھا چونکہ انہیں بات کرنے سے تکلیف ہو رہی ہے اس لئے خیریت پوچھنا ہی کافی ہے۔ 17اپریل کی تاریخ دن کے ساڑھے تین بجے کے قریب میں اسٹوڈیو سے اپنا ویڈیو لیکچر ریکارڈ کراکے گھر کی جانب لوٹ رہا تھا، کہ میرے دوست ڈاکٹر الطاف انجم (کشمیر یونیورسٹی) کا فون آیا اور انہوں نے مجھے بتا یا کہ آپ کا یار مناظر عاشق ہرگانوی اس دنیا میں نہیں رہے۔!
ہاں ۔ ہاں وہ بیمار ہی تھے۔۔ میں دیکھتا ہوں۔۔۔
میں نے اپنا فیس بک کھولا تو وہاں پوسٹس کی بھرمار تھی۔
افطار کے بعد ڈاکٹر قمر تحسین صاحب کا فون آیا اور انہوں نے تفصیل بیان کی۔ اگلے دن مناظر صاحب کی تجہیز و تکفین کے بعد تحسین صاحب سے پھر بات ہوئی اور شام کے وقت مناظر صاحب کے بڑے بیٹے ذیشان فیصل صاحب کو فون پر ہی تعزیت کیا۔ اس کے بعد محمد پرویز صاحب نے اس سارے المیے کو فون پر بیان کیا کہ مناظر صاحب کے آخری لمحات کتنے کربناک تھے۔!
اب آخر پر صرف اتنا ہی عرض کیا جا سکتا ہے کہ مناظر صاحب کا کچھ ہی کام زیر اشاعت ہے جو عنقریب منظر عام پر آسکتا ہے، لیکن مناظر صاحب کے جیسے صاحب قلم اور صاحب دل اُردو کو اور کیوں نہیں ملتے ہیں۔ جہاں دیکھو اردو کے بڑے بڑے پروفیسر لکھنے پڑھنے سے معذور۔ آپسی جھگڑوں، گروپ بندی میںمشغول، خواہ مخواہ سمیناروں، کلاسوں میں بغیر معلومات کے اپنا گلہ پھاڑ پھاڑ کر لیکچر جھاڑتے ہیں۔ اسکالرس کو تنگ کرتے ہیں۔ ہر کسی سے کیڑے نکالتے ہیں خود کچھ نہیں کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو کچھ کرنے دیتے ہیں۔ اردو کے نام پر سیلانی بنتے ہیں۔ مال لوٹتے ہیں، ایواڈس نہ جانے کیا کیا ناحق حاصل کرتے ہیں، اردو کے نام پر اپنے جیب سے ایک کوڑی بھی خرچ نہیں کرتے ہیں۔ اس کے برعکس مرحوم مناظر عاشق ہرگانوی ان تمام بد نیتوں سے مبرا تھے اور ایک سچے عاشق کی طرح اردو کی خدمت ہر محاذ پر تن من دھن کرتے تھے۔ اپنی آمدنی کا بیشتر حصہ کتابوں کی اشاعت پر صرف کرکے انہیں مفت میں ہم جیسے لوگوں تک پہنچاتے تھے۔ یہی ان کی سب سے بڑی عظمت ہے جنہیں ہم ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے۔۔