چند روز پہلے ایک ایسی خبر نظر سے گزری جس نے دل و دماغ کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ سخت پریشانی لاحق ہورہی ہے کہ ہماری نئی پود کا مستقبل کیا ہوگا ،ہمیں بارگاہِ الہٰی میں کن کن سوالوں کا جواب دینا پڑے گا۔ خبر تھی کہ یہاں کی ایک غیر سرکاری انجمن نے ایک سروے کیا جس میں 50000ایسی لڑکیوں کا دل ہلا دینے والا ذکر تھا کہ جن کی عمریں 40سال سے اوپر ہوچکی ہیں اور انہیں مسقبل میں بھی کوئی امید نظر نہیں آتی کہ ان کے ہاتھوں میں مہندی لگے گی۔وجوہات جاننے کی کوشش کرنے والی ٹیم کا کہنا ہے کہ اس میں جہیز کے لین دین ،شادی بیاہ میں بے انتہا اسراف،درجنوں پکوان اور مالی تنگی اور بےروزگاری کے ہاتھ صاف طور پر نمایاں نظر آتے ہیں۔سروے میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ دس 10000لڑکیوں کا تعلق سرینگر سے ہے۔لڑکیوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ لڑکے والے بالعموم سرکاری نوکری کرنے والی لڑکیوں کو ترجیح دیتے ہیں جو کہ ایک محال شے ہے اور ہر کسی کو میسر نہیں ہوسکتی ، کچھ لڑکیوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ سماج میں اپنی ناک اونچی رکھنے کے لئے جو وہ چیزیں جمع کرتے کرتے شادی کے بندھن میں بندھنے کی نعمت سے محروم ہو چکے ہیں۔ یقین نہیں آتا کہ کیا یہ وہی ارض کشمیر ہے جہاں لڑکی بالغ ہونے کے ساتھ ہی ہمسایہ اور رشتہ دار وں کو فکر لا حق ہوتی تھی کہ کس طرح اس بن بیاہی لڑکی کا نکاح ہو جائے اور وہ ایسے گھر میں کھانا کھانا بلکہ پانی پینا بھی حرام سمجھتے تھے جہاں بالغ لڑکی بے نکاح ہو۔ بہت بدلاو آیا ہے لیکن خو شگوار نہیں بہت ہی پریشان کن، کیا اس سے سماج میں برائیوں کو پنپنے میں مدد نہیں ملے گی بارگاہ الہٰی میں ہم جوابدہ نہیں ہیں کیا؟ ہمارا شہر اس وقت بن بیاہی لڑکیوں کے مسائل سے دوچار ہے، بالخصوص غریب طبقہ سے لے کر اوسط درجہ کے لوگ اس مسئلہ میں گھرے ہوئے ہیں۔شہر اور اس کے اطراف کے علاقوں کا جائزہ لے کر دیکھا جائے تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ کوئی گھر ایسا نہیں ہے جن میں لڑکیاں بن بیاہی بیٹھی نہ ہوں، ان میں کتنی ہی لڑکیاں ایسی ہیں جو اپنی شادی کے انتظار میں بڑی عمر تک پہنچ چکی، جن کے سروں میں چاندی کا ظہور ہوچکا، دولت مند حضرات کے کچھ مسائل ہیں تو اوسط درجے کے لوگوں کے الگ مسائل ہیں اور غریب طبقہ جو روز کی روزی روز کے اساس پر زندگی بسر کررہا ہے ان کے مسائل بھی بہت زیادہ ہیں۔گزشتہ ۵۳۔۰۴ سال قبل بھی یہ مسائل تھے لیکن آسانی سے حل ہوجایا کرتے تھے جبکہ معاشی لحاظ سے اس شہر میں بسنے والے عام لوگ بہت کمزور تھے، لیکن مالدار لوگ اپنے دل میں عزیز و اقارب اور غرباءو مساکین کا بہت زیادہ پاس و خیال رکھتے تھے۔ اس طرح بن بیاہی لڑکیوں کا اتنا مسئلہ نہیں تھا جتنا کہ آج ہے۔ایسی مثالیں پرانے شہر کے اکثر محلوں میں ہمیں ملتی ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ لوگ اپنے پرانے مکانات کی تعمیر جدید کرچکے، کچّے مکانوں کی جگہ شاندار بنگلے تعمیر کئے گئے اور جہاں پر نئی نئی بستیاں بنیں وہاں بھی باہر کی محنتِ شاقہ کے ذریعہ کمائی ہوئی دولت سے اچھے اچھے مکانات تعمیر ہوئے اور ایک تبدیلی یہ بھی محسوس ہوئی کہ یہاں کے رہنے بسنے والوں کا تعلیمی شعور بھی جاگا جس کی وجہ سے ڈاکٹر و انجینئرس کی ایک قابل لحاظ تعداد ہمیں نظر آتی ہے۔ علاوہ ازیں کئی ایک خوشگوار تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب انسان کے پاس دولت آتی ہے اگر اس کا غلط استعمال کیا گیا تو پھر یہی دولت ایک اچھے معاشرہ کو خراب کرکے رکھ دیتی ہے۔ یہ ایک اصول ہے کہ جب معاشرے کے دولت مند لوگ اپنی زندگی میں اعتدال کا دامن چھوڑتے ہیں تو ان کا دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی ان کی نقالی میں اپنی چادر سے زیادہ پیر پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ شادی بیاہ کے معاملہ میں یہی کچھ ہورہا ہے۔ اکثر لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ فلاں کی شادی فلاں سے ہورہی ہے اور یہ بات بھی جب معلوم ہوتی ہے کہ فلاں صاحب نے اپنی لخت جگر کی شادی میں اتنے لاکھ نقد دیا ہے اور بھاری قسم کا جہیز دیا ہے، بڑے شادی خانہ میں ضیافت کی گئی ہے یہ اور یہ پکوان کئے گئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ جب دولت مندوں کی یہ تصویر عام لوگوں کے سامنے آتی ہے تو ان کے اندر بھی لالچ پیدا ہوتی ہے اور لڑکی والوں سے ڈیمانڈ کئے جانے لگتے ہیں اور جو لوگ ان کی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے تیار ہوئے ان کا مسئلہ تو حل ہوگیا۔ لیکن اس کے پیچھے کئی مسائل وجود میں آئے جس کی بناءپر اوسط طبقہ اورغریب طبقہ بہت زیادہ متاثر ہوا اور انکی لڑکیاں اٹھنا پہاڑ آٹھنے جیساہوگیا۔جوڑے گھوڑے کی لعنت اتناجڑپکڑلی ہے کہ معمولی آدمی بھی بغیرلین دین یاکم جہیزپر ہرگز تیار نہیں۔ لوگوں کی مانگ کو پوری کرتے کرتے لڑکیاں والے اپنے گھروں کو تک فروخت کررہے ہیں اور جن کے پاس کچھ بھی نہیں ان کا تو اور بھی بُرا حال ہوگیا۔ بعض غریب لڑکیاں اپنی بیاہ کا بندوبست کرنے کے لئے مختلف کارخانوں کا رُخ کرتی ہیں تاکہ محنت مزذوری کرکے کچھ رقم جمع کرلی جائے لیکن اکثر موقع پر مالکین ان بے بس و نادار لڑکیوں کا استحصال کرتے ہیں۔دولت مند لوگ کم سے کم شادی بیاہ کے معاملہ میں تو سادگی اختیار کریں اور بے جا رسومات سے پرہیز کریں۔ بیاہ کے موقع پر لڑکوں کو رشوت دینا بند کریں۔ اس طرح دولت مند اور بڑے لوگ اپنے اندر سدھار لائیں تو متوسط لوگوں کے اندر بھی تبدیلی آنے کی قوی اُمید کی جاسکتی ہے۔ دوسری چیز یہ کہ ہر انسان کی دولت میں دیگر بندوں کا بھی حق بنتا ہے لہٰذ کوئی دولت مند شخض اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی کررہا ہو اُسے چاہئے کہ اپنے خاندان یا برادری یا پڑوس پر بھی ایک نظر ڈالے کہ کون کون لڑکیاں بن بیاہی بیٹھی ہیں پھر اِن میں سے کسی ایک لڑکی کی شادی بیاہ کا بندوبست کرے۔ یہ کام بہت اُسان ہے جوکہ بے جا رسموں اور اسراف سے بچتے ہوئے تھوڑی کفایت شعاری سے کام لیا جائے تو ہمارے شہر کی بن بیاہی لڑکیوں کے مسائل حل ہوسکتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہم سب قصور وار ٹھہرائے جائیں گے اور ہم اپنے ا?پ کو مجبور اور لا چار پائیں گے۔
277