264

پسِ زندان کی کہانی۔۔۔ بابا کی زبانی

سہیل سالم
رعناواری سرینگر

اللہ تعالی کی عظیم نعمتوں میں سے اولاد بھی نعمت عظمی تصور کی جاتی ہے۔اسی اولاد کی پرورش اور نگہبانی میں والدین کو کن کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اس کا مجھے بخوبی ادراک ہے۔یہی اولاد جب بے گناہ قید وبند میں شام و سحر گزار تا ہے تو والدین پر کیا بیتی ہے اس کا بھی مجھے پورا احساس ہے۔ میں نے بھی اپنی جوانی کے بارہ سال والدین کی غیر موجودگی میں گزارے۔میرے والدین پر کیا بیتی۔ تو پھرخاموشی سے سن لیجئے۔میرا نا م بشیر احمد بابا ہے اور میری پیدائی شہر خاص کے ایک مشہور علاقے رعناواری میں 14-04-1975 میں ہوئی۔اس کے بعد اپنی ابتدائی تعلیم اپنی ہی علاقے میں حاصل کی۔ اسلامیہ کالج آف سائنس اینڈ کامرس حول سرینگر سے بی۔ ای س۔سی2000 میں پاس کیا اورساتھ ساتھ میں نے ٹیکنیکل ایجوکیشن کے توسط سے کمپیوٹر سائنس میں ڈپلومہ بھی کیا اوراپنا ایک کمپوٹر انسچیوٹ قائم کیا۔روزی روٹی حاصل کرنے کے لئے ایک این۔جی۔ او کے ساتھ جڑ گیا۔ حقیت یہ ہے کہ یہ ایک نیشنل این،جی،او ہے جس کا نام  MAYA FOUNDATION تھا ان کا اشتراک جرمنی کی ایک chlidrens clift aid society سے تھا اور ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں ان کی شاخیں ہیں اور سماجی کی فلاجی و بہبودی کے لئے کا کام کرتی ہے۔سال ڈھیڈ سال سے میں ان کے ساتھ منسلک تھا۔ہم مختلف اضلاع میں جاکر وہاں کے اسکولوں،کالجوں،مسجدوں اور لوگوں میں بیداری پیدا کرتے تھے کہ ہم کچھ مخصوص جسمانی امراض کی جرائی کر تے ہیں۔جس کسی بھی مریض کو یہ جرائی کی جاتی تھی اس سے کوئی بھی پیسہ نہیں لیتے تھے۔چناچہ دور دراز علاقوں اور دیہاتوں میں ان امراض کی طرف دھیان نہیں دیا جاتا تھا۔چناچہ میں یہاں بحثیت پروجیکٹ مینیجر کام کرہاتھا۔ مایا فاؤنڈیشن اپنے کارکنوں کو گجرات کے لئے ہر رسال روانہ کرتے تھے تاکہ وہاں انھیں کام کرنے کی تربیت حاصل ہو۔میرا کام دیکھ کر مجھے بھی مذید تربیت حاصل کرنے کے لئے این،جی،او نے احمد آباد ایک ہفتے کے لئے روانہ کیا۔جہاں میں camp management training حاصل کر کے واپس آجاؤں تاکر میرے کام میں اور نکھار آجائے۔چھے دن ہوئے تھے مجھے وہاں تربیت لیتے ہوئے کیمپ کے آخری دن پولیس آئی بہ تاریخ27 فروری2010 کو اور انھوں نے ڈاکٹروں،این،جی کے کارکنوں کوتفتیش و تحقیق کرنا شروع کردی آہستہ آہستہ ہر ایک کورہا کیا گیا اور مجھے غیر قانوں حرکات کی لیبل چسپا کر کے مجھے سنگین جرام میں مبتلا کیا۔14 مارچ 2010 کو مجھے میڈیا کے سامنے پیش کر کے میرے اس بے بنیاد بہتان کو ہر زوایے سے ابھارا۔آخر کا رمجھے گجرات کے بروڈا سینٹرل جیل روانہ کیا۔میرے گھروالوں نے،میرے عزیز اقارب نے بھی گجرات کی عدالت کا رخ کیا اور مجھے دلاسہ دتتے رہے کہ پریشان ہونی کی ضرورت نہیں ہے۔ہم نے بھی وہاں کی پولیس کے خلاف کانونی کاروائی کی۔لیکن مجھے بھی پورا یقین تھاکہ ایک نہ ایک دن میں رہا ہوجاؤں گا
اس کے بعد میری زندگی کا ایک نیا دور بروڈا کے جیل میں شروع ہوا۔جب میں نے پہلا قدم بروڈا کی دہلیز پر رکھا تو مجھے سورہ البلد کی یہ آیت ذہن پر حاوی ہوگئی کہ اللہ تعالی نے فر مایا ہے”درحقیت ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے“۔بس آپ اتناسمجھ لیجئے جتنا بڑا علاقہ رعناواری ہے اس سے زیادہ بڑا یہ زندان ہے۔کوئی بھی چیز باہر سے خریدی نہیں جاتی۔ہر ایک چیز جیل کے اندر ہی مل جاتی ہے پھر چاہے وہ کھانے کی ہو یہ ضرورت رندگی کی۔ میں نے جب وہاں کا مشاہدہ کیا تب وہاں 3700 قیدی بند تھے نیز ہر ایک قیدی کو اپنے اپنے نمبر سے جاناجاتا تھا۔ مجھے قیدی نمبر 02 سے پہچانا جاتا تھا۔جیل کی پہلی رات کو میں نے کیا محسوس کیا اس کو بیان کرنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔بقول عروج قادریؔ ؎
آجیل میں تو جیل کے اندر کی فضا دیکھ
کس درجہ ہے پیچدہ یہاں موج ہوا دیکھ
کیا جیل کے پھاٹک پہ کھڑا جھانک رہا ہے
اے ہمدم دیرنیہ یہاں آکے ذرا دیکھ
بڑے بڑے عالموں اور مفکروں نے بھی اپنی زندگی کا بیشتر حصہ قید خانوں میں گزارا ہیں اور وہاں انھوں ایسے علمی کارنامے انجام دیئے کہ تاریخ ان کو کبھی بھی فر اموش نہیں کر سسکتی ہے۔ میں نے ان عالموں اور مفکروں کی تصانیف کا مطالعہ کیا تھا اس لئے بروڈا کا زندان بھی میرے لئے ایک دانش گاہ ثابت ہوئی کیونکہ میں نے پس زندان میں ان بارہ سالوں کا ایک لمحہ بھی رائیگاں ہونے نہیں دیا۔جب میں یہاں سے احمد آباد تربیت حاصل کرنے گیا تو میں نے ایم،اے اردو کا ایک سال مولانا آزاد اردو نیشنل یونورسٹی کے فاصلاتی نظام سے پاس کیا تھا۔اس کے بعد ہی مجھے نظر بند کیا گیا۔ اب میرے پاس کافی وقت تھا، بروڈا پہنچ کر میں نے سوچا شاید جو کام مجھ سے حراست سے پہلے نہیں ہوا،پس زندان وہ ہوسکتا ہے۔اس لئے وہاں میں نے سب سے پہلے اپنی تعلیمی سلسلے کا پھر سے آغاز کیا۔2012 میں نے سب سے پہلے بی،اے کیا۔اس کے بعد میں نے ایم۔ اے سیاست اور ایم۔اے پبلک ایڈمنسٹریشن میں کیا۔۔علاوہ ازیں میں نے intellectual property rights, para legal practice اورteaching English as a secondary language یہ تین ڈپلومز کیے۔ یہ ساری تعلیم میں نے (IGNOU) کے فاصلا تی نظام سے حاصل کی۔ شاید عام زندگی یا گھر کی مصروفیات میں، میں اتنی تعلیم حاصل نہیں کرسکتا تھا۔اس لئے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ کبھی کبھی کسی شر میں خیر کے پہلو بھی پہناں ہوتے ہیں۔بقول شاعرؔ ؎
نالے کا میرے ان پہ اثر اب ہوا تو ہے
محفل میں ان کی رنگ مرا کچھ جما تو ہے
ان کے لئے جو ظلم سہے تو نے رات دن
تیرا وقار ان کی نظر میں بڑھا تو ہے
ہاں جی! الحمد اللہ دن کا آعاز نہایت ہی خوبصوتی سے ہوتا تھا۔ میں صبح ساڑے چار بچے اٹھ کر سب سے پہلے وضو کرکے نمار فجر ادا کرتا تھا۔اس کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کرنا۔پھر صبح کے چھے بجے حولات کے تالے کھول دئے جاتے تھے۔حولات کے باہر تھوڑی چہل قدمی کے بعد چائے نوش فر ماتے تھے۔اس کے بعد میں ہر روز قرآن کے ایک پارے کی تلاوت کرتا تھا۔نوبجے تک ہر ایک کو کھانا دیا جاتا تھا۔کھانا کھانے کے بعد میں ساڑے گیارہ تک اخبار بینی ور رسالے پڑھتا تھا جن میں Times of India اورIndia Today سہر فرست ہے وہاں اور بھی اخبار آتے تھے لیکن وہ گجراتی زبان میں شائع ہوتے تھے جبکہ میں گجراتی زبان سے ناآشنا تھا اور ہوں بھی۔بارہ بجے سے لے کرتین بجے تک پھر سے حولات میں بند رکھاجاتا تھا۔ظہر کی نماز ادا کرنے کے میں تھوڑا بہت آرام کرتا تھا۔پھر تین بجے سے لے کر میں رات کے ساڑے گیارہ بجے تک اپنی پڑھائی میں وقت صرف کرتا تھا۔بروڈا میں ایک اچھا کتب خانہ بھی ہے جو کہ تین چار ہزار کتابوں پر مشتمل ہیں۔میں نے اس کتب خانے سے بھی خوب استفادہ کیا ہے۔ جب کبھی کبھی اپنے گھر والوں سے خط و کتابت کے ذریعے حال چال جانے کی کوشش کرتا تھا تو ساتھ میں یہ بھی رقم کرتا کہ میرے لئے فلاں کتاب بھیج دینا۔پھر گھر سے میرے لئے کتابیں آتی تھی۔گھر سے زیادہ میں نے سیرت رسولﷺ کی کتابیں منگوائیں نیزجن کا بھی میں نے پس زندان میں مطالعہ کیا۔ کبھی کبھی قلم کو بھی جنبش دی اگر اللہ نے چایا وہ ضرور منصہہ شہود پر آئے گا۔ ا س طرح میں نے اپنے شب روز زندان میں گزار دئیے۔کبھی کبھی جب گھر کی یاد آتی تھی، تو گھر کی حالت مجھے سے میرا چین چھین لیتی تھی کیونکہ ہمارے گھر کی اقتصادی حالت کافی خراب تھی۔اس لئے میرے گھر والے کبھی کبھارملاقات کے لئے آتے تھے۔میری والدہ جب مجھے ملنے آئی تو انھوں نے اپنے سونے کے کچھ زیورات فروخت کر کے پیسوں کا انتظام کیا۔میرے والد صاحب بھی میری جدائی برداشت نہیں کر پائے جس کے سبب وہ ذہنی امراض میں مبتلا ہوکر ایک مہلک مرض کے شکار ہوگئے۔گھر کی حالت اتنی بگڑ گئی کہ جس کمپوٹر انسچیوٹ کی بنیاد میں نے رکھ لی تھی اس کو بھی فروخت کیا۔بروڈا کے زندان میں،میں نے بہت کچھ پائے بھی اور بہت کچھ کھویا بھی۔15 اپریل 2017 کی رات کو میں نے خواب دیکھا،خواب یہ تھا کہ میں نے اپنے والد کا سر اپنی آغوش میں دیکھا کہ میں ان کو غسل دے رہا ہوں،میرے جب آنکھیں کھل گئی تو مرے آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے۔یہ رات میرے ان بارہ سالوں میں سب سے اذیت ناک رات تھی۔اسی رات مجھے یہ محسوس ہواکہ میرے والد صاحب کی روح پرواز کر گئی اور میں ان کے تجہیزو تکفین کے کام بھی نہ آیا۔نہ ہی مجھے آخری بار اپنے والد کے چہرے کا دیدار نصیب ہوا۔میں کتنا بدنصیب ہوں کہ میں نے اپنے والد کو کھویا۔بہر کیف میں نے یہ بارہ سال تعلیم پر صرف کرکے بہت کچھ پایا بھی۔میں نے کبھی بروڈا جیل کے اصول وضوابط سے منہ نہیں موڑا جس کے سبب جیل کی انتظامہ بھی مجھے عزت کی نگاہوں سے دیکھتے تھے اور میرا مزاج و مہاج دیکھ کر ہر بار یہی کہتے تھے کہ ایک نہ ایک دن آپ ضرور رہا ہوجائے گے۔اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ19 جون2021 کو گجرات کی عدالت نے میرے حق میں یہ فیصلہ سنایا کہ بشیر احمد بابا پہ جو الزام لگائے گئے وہ بے بنیادثابت ہوئے اس لئے گجرات کی عدالت انھیں رہا کرتی ہے۔یہاں سے آب میری زندگی کی کہانی کا ایک اور باب شروع ہوگا اس یقین کے ساتھ؎
اک آن میں سوبار بدل جاتی ہے تقدیر
ہے اس کا مقلد ابھی ناخوش ابھی خورسند
تقدیر کے پابند بنا تات و جمادات
مومن فقط احکام الہی کا ہے پابند

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں