282

زندگی سے فرار کیونکر؟

کچھ عرصے سے تسلسل کے ساتھ خودکشی کی وارداتوں نے ذی شعور فکر مند طبقے کو تڑباکر خون کے آنسو رونے پر مجبور کردیا ہے۔ سوشل میڈیا، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں آئے دن خود کشی کے واقعات نے سرشرم سے جھکا دئے ہیں، وادیِ کشمیر، خطہ¿ چناب، خطہ¿ جموں اور خطہ¿ پیرپنجال کے تمام اضلاع سے بڑی تیزی کے ساتھ خودکشی کی خبریں دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہیں جس پر عقل دم بخود اور محوِ حیرت ہے کہ جنتِ ارضی میں یہ کیا سے کیا ہوتا جارہا ہے۔جنتِ بے نظیر جموں وکشمیر، یوں تو اپنے قدرتی حسن، قدرتی وسائل اور روحانیت کی بنیاد پر اپنی نظیر آپ ہے مگر افسوس کہ یہاں بدقسمتی سے جنسی جرائم اور خود کشی کے یومیہ پیش آنے والے واقعات کی بنیاد پر تیزی کے ساتھ اخلاقی گراوٹ کی طرف بڑھ رہی ہے- جموں وکشمیر میں خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ نوجوان زندگی کی انمول نعمت کو چھوڑ کر موت کو گلے لگا رہے ہیں۔ چند دنوں سے خودکشی کے واقعات رونما ہونے کی خبریں تیزی کے ساتھ سننے کو مل رہی ہیں کہ فلاں مقام پر فلاں نوجوان لڑکی یا لڑکے نے گلے میں پھندا ڈال کر یا زہریلی شئے کھا کر یا دریا میں کود کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ ان واقعات سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ نسل کتنی حساس ہے بلکہ برداشت کی قوت میں بھی ان میں کتنی کمی ہے۔ بروقت نظر پڑنے سے اگرچہ اب تک کئی نوجوانوں کو خودکشی کرنے سے روکا بھی گیا ہے لیکن خودکشی کے ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جو کہ ہمارے معاشرے کو جھنجوڑنے کے لیے کافی ہیں۔یہ بات مسلم ہے کہ دنیا دارالامتحان ہے، ہر وقت اور ہر منزل پر آدمی کا واسطہ نت نئے مسائل سے پڑتا رہتا ہے۔افسوس کہ ہمارے یہاں خودکشی کا رجحان اتنا عام ہوتا جارہا ہے کہ ہم اخلاقی طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں – تکالیف، مصائب و آلام اور ناکامی وقتی ہوتی ہے، یوں بھی جموں وکشمیرگزشتہ تیس سال سے مصائب کی دلدل میں مستغرق ہے، تکلیف کبھی تو جلد رفع ہوجاتی ہیں اور کبھی وقت لگتا ہے۔ خودکشی کا اقدام مشکلات سے فرار کا ایک راستہ ہے۔ دنیا میں وہی شخص کامیاب ہوتا ہے جو ہر طرح کی پریشانیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرے اور زندگی کی آخری منزل تک پہنچ جائے۔ حدیث میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے محبوب نبی پاک نے فرمایا کہ جو شخص اپنے آپ کو کسی لوہے کے ہتھیار سے قتل کرلے تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا وہ اس کو اپنے پیٹ میں بھونکتا رہے گا اور جہنم کی آگ میں ہمیشہ جلتا رہے گا اور جو شخص زہر پی کر اپنی جان لے تو وہ چوسا کرے گا اسی زہر کو، اور جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہے گا اور جو شخص اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر مار ڈالے گا تو وہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں گرا کر ے گا، سدا اس کا یہی حال رہے گا۔ہماری وادی¿ کشمیر میں خود کشی کی وجہ یہ ہے کہ لوگ بھوک افلاس ،غربت ،بیماری ، یا حالات کے تشدد کے باعث ایسا کرتے ہیں۔ خصوصاً بے روزگاری تو اس میں سرفہرست ہے۔ اکا د±کا لوگ محبت یا امتحان میں ناکامی کی وجہ سے خودکشی کرتے ہیں۔ حکومت نے آج تک صرف ٹیکس وصول کرنے پر اپنی توانائی خرچ کی ہے مگر کبھی یہ نہیں سوچا کہ محض ٹیکس وصول کرنا ہی کافی نہیں بلکہ اس رقم کو احسن طریقے سے خرچ کرنا بھی اس کا اولین فرض ہے۔آج ہم نہ جانے کتنے بے حساب ٹیکس اداکرتے ہیں مگر یہ خطیر رقم حکمرانوں کے شاہی اخراجات پر صرف ہوتی ہے۔ کیا یہ حکومت کی ذمہ داری نہیں؟ اگر حکومت اپنا فرض پورا کرے تو نوجوانوں میں مایوسی حد درجہ کم ہوجائے گی ،غربت دم توڑ دے گی اور خودکشی کے اسباب پیدا نہ ہوں گے۔آج جموں و کشمیر کی صورت حال یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ،باصلاحیت اور ملک و قوم کے لیے اپنے اور اپنے متعلقین کے لیے کچھ کر ڈالنے کے عزم سے سرشار نوجوان مارے مارے پھررہے ہیں اور ان کو کلرک(منشی)کا کام بھی نہیں مل رہا ہے۔باربار کی ناکامیاں ان کا دل توڑدیتی ہیں۔پھر مایوسی کی بنیاد پر تنگ آکر کوئی ڈاکو بنتا ہے ،کوئی تخریب کار پیدا ہوتا ہے۔جموں و کشمیر کی انتظامیہ کو چاہیے کہ اس خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے کے لیے بے روزگاری الاو¿نس کی ادائیگی کا فوراًاہتمام کرے اور نوجوانوں کو تشدد اور غیر انسانی سلوک سے محفوظ رکھنے کے اقدامات اٹھائے۔ یہی وہ سب سے بڑی وجوہ ہیں جو ان نوجوانوں کو خودکشی پر مجبور کرتی ہیں۔کپڑے اور مکان کے بغیر تو انسان زندہ رہ سکتا ہے مگر روٹی کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں۔اسی طرح انسان کو اپنی عزت نفس سب سے زیادہ عزیر ہوتی اور جب بات عزت کی آجائے تو عزت داروں کے لیے عزت کے بدلے موت کا سودا بہت سستا ہوتا ہے۔آج ہمارے معاشرے میں اگر اسلامی تعلیمات عام ہوں تو خودکشی کے رجحان کو کم کیا جاسکتا ہے۔ جموں وکشمیر میں ہمارا معاشرہ انتشار کا شکار ہے اور ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے، جس کی وجہ سے پریشان حال لوگ مایوس ہوکر خودکشی جیسے گناہ کا ارتکاب کرنے لگے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں