384

ذمہ داریوں سے فرار

جب کسی معاشرے میں اجتماعی رویے خطرناک حد تک بگڑ جا تے ہیں تو وہاں اخلاقی زوال شروع ہوجاتا ہے جو جلد یا بدیر مکمل تباہی پر منتج ہوتا ہے۔عید الاضحی کے موقع پر بطورِ مسلمان ہمارے لئے ایک اہم اجتماعی رویے کا امتحان ہوتا ہے، لیکن لوگ اپنے جانوروں کی غلاظتوں کو ذمہ داری سے ٹھکانے لگانے کے بجائے گلی محلے کی نکڑ پر گلنے سڑنے کے لئے ڈال دیتے ہیں جس سے نہ صرف گندگی و تعفن پھیلا ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہواہے، بیماریاں پھیلتی ہیں اور گلی، محلے، شہر کی خوبصورتی بھی خراب ہوتی ہے اور یہی کچھ اس با ر بھی کورونا کی عالم گیر لہرکے بیچ بھی ہوا۔آج کے اسِ کرونائی عہد میں جب جب لاک ڈاون اٹھایا جاتا ہے تو کیا ہم مصروف بازاروں میں بھیڑ بھاڑ کرنے سے پرہیز کرتے ہیں؟ لائن بنا کر مسافر گاڑی میں سوار ہوتے ہیں؟جہاں کہیں بھی پبلک بیت الخلا (ٹوائلٹس )ہیں، کیا ان کی صفائی اطمینان بخش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں؟کرونا کی وبائی بیماری سے بچنے کے لئے احتیاتی تدابیر پر عمل کرتے ہیں؟ اس وقت بھی گھروں میں کھانا ضائع نہیں کرتے ہیں؟ استاد اورامام کو حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہیں؟ چلتی گاڑی سے سڑک پر کوڑا نہیں پھینکتے ہیں؟ بجلی کی چوری نہیں کرتے ہیں؟ پینے کے پانی کی قلت کے باوجود پانی کا زیادہ تر حصہ ضائع نہیں کرتے ہیں؟کیا پورا ناپ تول ہمارا شعارر ہا ہے؟ اورکیا ہمیں ملاوٹ سے نفرت ہے؟یہ کچھ ایسے سوالات ہیں جن کا کوئی بھی مثبت جواب ہم دے نہیں پارہے ہیں۔یہ ہمارا وہ بدترین اجتماعی رویہ ہے جسے سدھارنے میں ہمارے پیارے نبی کا یہ فرمان بھی ہم پر اثر نہیں کرتا کہ ’صفائی نصف ایمان ہے‘ جس کا اطلاق انفرادی و اجتماعی صفائی کے ہر شعبے پر ہوتا ہے لیکن ہم ہیں کہ ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ صفائی ستھرائی پر مامور ادارے و سرکاری ہرکارے جہاں اپنے کام میں سستی کرتے دکھائی دیتے ہیں وہیں عوام الناس کی طرف سے بھی صفائی کی انفرادی کوششوں کا شدید فقدان نظر آتا ہے۔ لہٰذا ہم یہاں انتظامیہ سے صفائی کے اچھے انتظامات کا تقاضا کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور عوام کے کردار پر بحث کرتے ہیں کیونکہ اصل میں عوام ہی تبدیلی کا سرچشمہ ہیں۔اگرچہ بنیادی طور پر یہ سرکاری اداروں اور اہلکاروں کی ہی ذمہ داری ہے لیکن اس حوالے سے عوام الناس بھی بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ زندگی کے اور کتنے ہی معاملات ایسے ہیں جن میں ہم صرف سرکاری اداروں پر تکیہ کرنے کے بجائے ذاتی حیثیت میں کوشش کرکے اپنا اور دوسروں کا بھلا کرسکتے ہیں۔ بیشتر لوگ ان چیزوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس حوالے سے بھی انفرادی کوشش کو اپنا فرض نہیں سمجھے حالانکہ یہ ا±ن کی گلی، ا±ن کا محلہ، ا±ن کا علاقہ اور ا±ن کااپنا ہی شہر ہے۔کچھ علاقوں میں یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ مونسپلٹی کی گاڑیاں کوڑا جمع کرتیں ہیں اور اس پر ماہانہ 100 روپیہ وصول کرتے ہیں یہ سرینگر کے مضافات میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے تاہم کچھ لوگ انکو کوڑا دینے کے بجائے نہروں اور ندیوں میں پھینک دیتے ہیں جس سے آگے بڑھتے ہوئے نہریں بلاک ہوجا تی ہیں اور کئی بیماریاں پھیلنے کاسبب بنتی ہیں۔لہٰذا اجتماعی طور بیدار ہوکر ذمہ داری نبھانے کی اشد ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں