302

کشمیر میں کامیاب شخص کون؟

ڈاکٹر محی الدین زور کشمیری

Success has ruined many a man (Benjamin Franklin Poor Richard’s Almance)
کچھ برس پہلے میں ایک قصبے میں گھر کا سامان خرید رہا تھا تو ایک شخص سے میری رسمی گفتگو ہوئی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ یہ جو آپ یہاں بہت بڑا شاپنگ مال دیکھ رہے ہیں اس کا مالک اور میں آج سے کوئی دس سال قبل اسی جگہ آپسی شراکت میں ایک ہی ریڈی پر میوہ فروخت کرتے تھے۔ ایک روز میں صبح سے انار بیچ رہا تھا اور دن کے دو بچے کے قریب ±میرے پاٹنر آئے اور دیکھا کہ تقریباً دو کلو گرام سڑے ہوئے انار میں نے الگ رکھے تھے، انہوں نے پوچھا یہ انار تم نے ابھی تک کیوں نہیں بیچے؟ میں نے جواب دیا یہ تو سڑے ہوئے ہیں، جس گاہک کو میں دیتا وہ گھر میں انہیں دیکھ کر ہمیں بُرا بھلا کہتا۔۔۔
اس بات پر انہوں نے مجھے کہا کہ تم جاو¿ ، کھانا کھاکے اور نماز پڑھ کے آجاو۔
میں جب ایک گھنٹے کے بعد واپس آگیا تو دیکھا ہماری ریڈی پر سڑے ہوئے اناروں کا کہیں نام و نشان تک نہیں تھا۔ میں نے اپنی سادگی میں پوچھا، بھائی تم نے تکلیف کیوں کی ان اناروں کو پھینکنے کی، میں انہیں خود میونسپلٹی کے گاربیج میں پھینک دیتا۔
ارے میرے نادان پاٹنر اگر میں آپ کی طرح سوچوں گا، تو کیسے ترقی کر پاو¿ں گا۔ وہ سڑے ہوئے انار میں نے پھینکے نہیں، بلکہ بیچ دئے۔ یہ دنیا کا کاروبار ہے بھائی، یہاں ہر کام میں اپنا منافع دیکھا جاتا ہے ہم دوسروں کی فکر کیونکر کریں گے۔!
دوستو! کامیابی اور نا کامی کیا ہے۔ یہ کوئی عجیب و غریب سوال نہیں ہے، بلکہ اس کا آسان سا جواب ہے۔ پوری دنیا میں سچ اور جھوٹ، حلال اور حرام کے لئے اپنی اپنی Definitions بنی ہوئیں ہیں۔ اس میں آپ اپنی طرف سے کچھ بھی اضافہ یا کمی نہیں کر سکتے ہیں۔ اس میں آپ علاقائیت، سماج و مذہب یا کسی اور چیز کا سہارا بھی نہیں لے سکتے ہیں ، بلکہ یہ ایک ایسا مکمل فارمولہ ہے، جو ہر کہیں اور ہر وقت apply ہو سکتا ہے۔ اب بدلتے زمانے کے ساتھ ساتھ چند لوگوں نے زندگی کے چند بنیادی اصولوں کو بدل کر rename کر دیا ہے، لیکن ”صداقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے“ اس طرح اپنے ذاتی اغراض کو حاصل کر لینے کے لئے ہم اصل بات کو کتنا بھی چھپا لینے کی کوشش کیوں نہ کرلیں گے۔ کتنا جھوٹ بولیں گے، حقیقت کو دبانے کی لاکھ کوشش کریں گے، اپنا لباس، اپنا حلیہ بدل لیں گے، دِن کو رات کہہ لیں گے، اپنی شاطرانہ حرکتوں سے کسی ایسے طریقے سے دوسروں کا حق مارلیں گے، تاکہ کسی کو خبر نہ لگ جائے۔ چمکتے سورج پر کالی چادر ڈالنے کی کوشش کریں گے، مگر ایک دن ایسا آہی جاتا ہے کہ ہم پکڑے جاتے ہیں۔ ٹھیک ہے ہماری ان تمام حرکتوں سے وقتی طور پر کسی کو دھوکہ لگ جائے گا، یا وہ کسی دباو¿ یا اپنی سادگی کی وجہ سے ہم سے کچھ کہہ نہیں پائیں گے، لیکن وقت آنے پر ہمارا جھوٹ تھوڑی سی گرمی کی وجہ سے برف کی طرح پگل جائے گا۔ ایک مشہور انگریزی ڈارامے ڈاکٹر فاوسٹس (مارلو) میں دکھایا گیا ہے کہ جب ایک مغرور انسان (ایکارس جانور کی طرح) حد سے زیادہ پرواز کرتا ہے، حالانکہ اس کے پنکھ اصل میں موم کے بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ تو سورج کی گرمی کی وجہ سے اس کے وہ پنکھ پگھل جاتے ہیں اور یہی حال اس شخص کا ہو سکتا ہے جو کوئی بڑا عہدہ deserve نہیں کرتا ہے، بلکہ وہ اپنی چالاکی سے اسے حاصل کرلیتا ہے۔ پھر وہ ہمیں ضرور طرح طرح سے ستاتا ہے لیکن وہ دن دور نہیں جب اس کا سارا تخت و تاج چھین لیا جاتا ہے اور وہ یا تو بے موت مارا جاتا ہے یا پھر ایک ذلیل حیوان کی زندگی گزارتا ہے۔ چاہے وہ جابر حکمران ہو، فوجی جرنیل ہو یا پھر سرکار کا کوئی عہدہ دار۔ عام طور پر آج کل کے دور میں کامیاب انسانوں کی چار کیٹاگریاں ہمیں ملتی ہیں۔ (۱) کاروباری (۲) سرکاری عہدہ دار (۳) مذہب کے ٹھیکیدار اور (۴) سیاست کار ۔ اب ان چاروں گروپوں پر الگ الگ مختصراً بات کی جائے گی تاکہ یہ بات کسی حد تک واضح ہو کہ لوگ منزلیں کیسے طے کرتے ہیں اور ہماری طرح کچھ لوگ یہ کہنے کے لئے کیوں مجبور ہو جاتے ہیں۔
نہ گُلِ نغمہ ہوں، نہ پردہ¿ ساز میں ہوں اپنی شکست کی آواز (غالب)
ایک عام انسان نے کیا خوب بات کہہ دی کہ اپنے خون سے کسی کے چہرے پر لالی نہیں آتی ہے، بلکہ دوسروں کا خون چوسنے سے چہرے پر لالی آجاتی ہے۔
میں نے اس مضمون کی شروعات ایک بزنس مین کی کہانی سے کی۔ آپ جانتے ہیں کہ رواں شورش کے دوران کاروباری سیکٹر کو کشمیر میں کتنا نقصان ہوا اور برسوں پہلے کے business establishments کی یہاں صورتحال کیا ہے۔ دوسری طرف یہاں کا جو اپنا خام مال ہے، اس کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ لوگ زراعت و روایتی دستکاریوں کو چھوڑتے ہیں کیونکہ جب انہیں ان کاموں سے کچھ حاصل ہی نہیں ہوتا ہے۔ یہاں سرکار نے ابھی بڑی فیکٹریاں نہیں لگوائی ہیں اور نہ یہاں نینو جیسے بڑے بڑے پروجیکٹس تیار کئے جاتے ہیں، مگر پھر بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ کشمیر کے ہر قصبے یا پھر شہر میں کچھ لوگ اپنے بڑے بڑے establishments کیسے کھڑا کر پاتے ہیں اور دوسروں کو مات کر دیتے ہیں؟
ایک کامیات سرکار کا ملازم، عہدہ دار یا کسی بڑے سرکاری لارڈ کے لئے کوئی qualification نہیں چاہئے بلکہ رشوت دے کر ملازم لگتا اور پھر ساری سروس میں رشوت لینا، اپنے اعلیٰ افسروں کے ساتھ ہاں میں ہاں ملانا، اپنے ساتھیوں سے گپ شپ میں سرکاری وقت گزارنا، چاپلوسی کرنا اور منسٹروں وغیرہ جیسے صاحب اقتدار لوگوں کے تلوے چاٹنا یہی فرمان برداری ہے اور اسی میں آپ کی کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے۔ باقی آپ ایماندار رہے، تو کسی کام کے نہیں ہیں اور ناحق آپ کے ساتھی آپ کے دشمن بن سکتے ہیں۔ عوام کا کام بڑی بے لوثی سے کرنا چاہتے ہیں، تو آپ ہر کسی کے سامنے سستے کہلائیں گے۔ اپنی قابلیت کا اظہار کروگے، تو یہ آپ کا سب سے بڑا جرم ہے اور اس جرم کی سزا کم از کم آپ کی تبدیلی اور زیادہ سے زیادہ آپ کو سرکاری نوکری سے برخواست بھی کیا جا سکتا ہے؟
ہر دور میں کلرجی کا بھی حکومت اور سماج میں ایک اہم رول رہتا ہے۔ اب کچھ اسٹیٹس یا ممالک ایسے ہوتے ہیں کہ وہ لبرل رہنا چاہتے ہیں، اس لئے وہ لوگ مذہبی رہنماو¿ں کو وہاں کچھ زیادہ اہمیت نہیں دے دیتے ہیں، لیکن ایران، سعودی عرب، ہندوستان اور اب افغانستان جیسے ممالک میں مذہب والوں کی ہی بالا دستی چلتی ہے۔ ہندوستان میں تو مودی اور یوگی رجت شرما شو میں علی الاعلان کہتے ہیں کہ ہمیں ٹوپی اور مولوی سے کیا لینا دینا ہے اور اسی منہ سے سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ الاپتے رہتے ہیں۔ اسی طرح کشمیری مولوی بھی اپنے انداز میں جیتے ہیں، انہیں اگر موقع دے دیا جائے، تو نہ جانے وہ بھی تلک اور کراس کے بارے میں کیا کیا کہیں گے!۔
چونکہ یہاں تقریباً سبھی لوگ مسلمان ہیں، اب کیسے وہ اپنی اپنی دوکانیں خوب سے خوب تر سجائیں گے۔ ادھر معاملہ یہ بھی ہے کہ یہ سبھی لوگ آپس میں رشتہ دار بھی ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ اپنے روایتی اور کارگر فارمولے پر کاربند ہیں جسے کشمیری زبان میں کہتے ہیں ایک بھائی مولوی نے مسجد میں کہا کہ مذہب کے مطابق کالا کتا اچھا ہے اور دوسرے بھائی مولوی نے دوسری مسجد میں کہا کہ نہیں کالا کتا منحوس ہے اور سفید کتا اچھا ہے۔ تو اس طرح لوگ برسوں تک آپس میں لڑتے رہے اور مولوی لوگ ان کی اس لڑائی سے اپنی روٹیاں سینکتے رہے۔ ان روایتی چیزوں کو اپنانے کی ہمیں اب عادت ہو گئی ہے کہ اگر کوئی مولوی / واعظ ہمیں pure وعظ پڑھے گا، ہم ان کی باتوں کو ماننے والے نہیں اور نہ جانے ہم اس پر کیا کیا الزام لگاتے
رہیں گے!۔
کامیاب سیاست کار ہم کس کو کہیں گے اور آج کل اس کی کیا definition ہے، یہ بھی ایک بہت بڑا سوال ہے اور کشمیر کے تناظر میں اگر دیکھا جائے گا، تو یہ اور زیادہ کنفیوژن ہمیں پیدا کر دیتا ہے۔ 1947 ءسے لے کر آج تک یہاں کا کوئی ایک سیاست کار مجھے دکھایئے جس کی پالیسی ساری زندگی ایک ہی رہی اور وہ ہر کسی کو قابل قبول ہو!۔
کشمیر کو اتنا لوٹا گیا کہ نرسمہا راو¿ کی طرح تکیوں میں نہیں بلکہ کوٹھہاروں میں دادیوں نے اپنی پڑپوتیوں کے لئے مال بھر کے رکھا ہے!کہا جاتا ہے کہ جیسے لوگ ویسے ہی ان کے لیڈران ہوتے ہیں اور کشمیر میں یہ کہاوت بھی بنائی گئی ہے کہ بخشی نے کہا کہ میرے ساتھ کوئی چالیس لاکھ لوگ ہیں اور شیخ عبداللہ نے بھی کہا کہ میرے ساتھ بھی اسی تعدار میں لوگ ہیں، جبکہ کشمیر کی آبادی کل چالیس لاکھ ہی تھی۔ اب اس کے ساتھ کون ہیں اور اس کے ساتھ کون ہیں؟ ۔ دراصل ہم کشمیری لوگ ہر کسی کے ساتھ ہوتے ہیں اور ہم ہر کسی اچھے برے کو خوب صلواتیں بھی سناتے رہتے ہیں؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں