ہر مذہب میں علم کی فضیلت اور افادیت پر زور دیا گیا ہے۔ عالم کی فضیلت جاہل پر بہت ہی زیادہ ہے۔ظاہر ہے کہ جاہل اور عالم ایک جیسے نہیں ہوسکتے۔پیغمبر وراثت میں دولت نہیں چھوڑتے ہیں بلکہ علم چھوڑتے ہیں ،جس سے علم کی فضیلت اور افادیت کا پتہ چلتا ہے۔ہم اگرچہ تعلیم کے بہت ہی قدرداں ہیں تاہم تقریباً دو سال بیت چکے ہیں جب سے کشمیر میں تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں۔ اب سماج میں بھی یہ بات رس بس چکی ہے کہ اب تعلیم کا کوئی بھی فائدہ نہیںہے۔ اگست 2019 میں دفعہ370کو ہٹا کر،وادی کشمیر میں مہینوں کے لیے تعلیمی ادارے بند رہے۔ اس کے بعد 2020 کی شروعات ایک نئی وباء سے ہوئی، جس نے پوری دنیا کے اداروں کے ساتھ تعلیمی اداروں کو بھی بند کروانے پر مجبور کروایا۔ 2019ء سے لے کر آج تک ان دو سالوں میں جتنا نقصان تعلیمی نظام کو پہنچا ہے اتنا نقصان کسی نظام کو نہیں پہنچا ہے تو ایسے میں ہمارا رول کیا اور کیسا ہونا چاہیے؟ ایسے میں ہمیں کیا کرناچاہئے۔ تو ایسے میں ہم دوسرے فروعی مسائل کو چھوڑ کر، تعلیم جیسی بنیادی چیز کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کروا سکتے ہیں۔مذہبی مقامات ، اپنے گھروں ، کھیل کود کے میدانوں، شادی کی محفلوںاور دوسرے مجالس میں ہم علم کی عظمت کو بیان کر سکتے ہیں۔اس سے علم محدود اور مخصوص تعلیمی اداروں سے نکل کر ہر جگہ پانے والی ایک شے بن سکتی ہے۔اس کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہوگا کہ لوگ اپنی روزمرہ عبادات و عادات کی طرح علم کو عام کرنے کی اس عبادت میں مشغول رہیں گے اور اس عمل سے نہ صرف وہ خود اس نعمت سے فیض یاب ہوں گے بلکہ دوسروں کو بھی مستفید کریں گے۔ اب اگرہمارے معاشرے میں ناسور کی طرح موجود بدعات اور رسم و رواج کی بات کریں گے جو کہ اب ہر صورت میں ہمارے لئے بربادی کا سامان بن چکے ہیں۔ مگر اس کے برعکس تعلیم میں ان پیسوں کا استعمال، ترقی کا ضامن ہے۔ یہ بات ذہن نشین کرنا تو مشکل ہے ہی مگر اس کو عملانا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ جو طاقت ان رسموں میں صرف ہوتی ہے، وہ تعلیمی اداروں کے چلانے اور کھولنے میں معاون ہوسکتی ہے۔ اگر ہم اس معاملے میں ہاتھوں ہاتھ کامیابی حاصل نہ کر سکتے ہیں مگر کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں بے. اللہ تعالیٰ ہم سے کوشش چاہتا ہے، نتیجہ نہیں۔ نتیجہ تو اس کے ہاتھ میں ہے. یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ آج تک ہم نے رسموں کو پابندی سے عملایا، مگر نتیجہ کیا نکلا، کچھ بھی نہیں۔ دنیا کی ترقی میں بہت پیچھے رہ گئے۔ تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کرنے کےلئے اگر کچھ ہے تو وہ ہے تعلیمی اداروں کا جلد از جلد کھولنا۔تیسرا ہے وبا کی کم ہوتی ہوئی شدت۔ پچھلے مہینوں کی نسبت اب وبا آہستہ آہستہ تھمتی جارہی ہے۔ تو ایسے میں ہم لوگ اپنی سطح پر بھی اور سماجی سطح پر بھی ایسا ماحول بنا سکتے ہیں جس کی وجہ سے یہ ممکن ہوسکے کہ بچے جلد سے جلد اسکول، کالج یا یونیورسٹیاں جا سکے۔احتیاط کو لازمی بنا کر ہم ایسا کرسکتے ہیں۔ مگر ہمارے یہاں پہلا قدم اٹھانا ہی مشکل ہوجاتا ہے۔ میں اس معاملے میں تیار ہوں۔ اپنی ذات سے اور پھر گھر والوں سے شروع کر کے، ہم چاہتے ہیں تعلیمی ادارے کام کرنا شروع کردے۔چوتھا ہے موبائل فونس کی لت۔ آن لائن پڑھائی کی آڑ میں اب پڑھائی کم، دوسرے کام زیادہ کرتے ہیں. آن لائن کھیل یا آف لائن کھیل، اب بچوں کا مشغلہ بن چکا ہے۔اپنے آپ سے دور، گھر والوں سے دور اور پھر سماج سے دوری کی وجہ سے تعلیمی اداروں کا کھولنا لازمی بن چکا ہے۔بہت ساری بیماریوں نے جنم لیا ہے۔ سب سے زیادہ ذہنی بیماریاں ہیں، جو ایک قوم کے لئے تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ جذبات سے عاری اس لاحاصل دنیا میں یہ بچے اب خود بھی مشینیں بنتے جا رہے ہیں۔مستقبل کے لئے جینے کا مطلب ہوتا ہے حال میں جینا اور حال میں جینے کا مطلب ہوتا ہے کہ ماضی کو کبھی بھی بھلانا۔اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی، تو میں وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ آنے والا کل تاریک ہوگا۔یہ تاریخ کا سبق ہے کہ کسی بھی قوم کو تباہ دیکھنا ہوں، تو اس قوم کے تعلیمی نظام کو ایک مخصوص مقصد کے لیے بنا دو۔ یا تو تعلیمی اداروں کو ہی بند کردوں اور بچوں کی حیوانی جبلات کو اجاگر کرتے رہوں، تاکہ وہ آخر میں انسان نما حیوان بنے. یہی انسان نما حیوان کل جا کر قوم کو جہالت کے اندھیرے میں دھکیل دیں گے اور جہاں سے نکلنا ناممکن تو نہیں، مشکل ضرور ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ماہرین کی رائے لینے کے بعد تعلیم و تعلم کا سلسلہ بحال کیا جائے کیونکہ یہی پود تعلیم سے محروم رہ گئی تو آنے والی نسل کا مستقبل کون سنوارے گا۔
369