فاضل شفیع فاضل, اکنگام انت نگ
جنوبی کشمیر کے کوکرناگ کی برفیلی پہاڑیوں کے بیچ ایک وادی تھی جس کا نام تھا وادی عشق۔ یہ نہایت ہی حسین اور خوبصورت وادی تھی۔ عشق اس وادی کا مذہب تھا۔ یہ وادی دنیا سے بالکل الگ تھی اور کشمیر کے لوگوں سے ان کا ملاپ نہیں ہوا تھا۔ رنگین، سرسبز ،معتدل آب ہوا، صاف و شفاف اور میٹھا پانی اس وادی کی چند اہم خصوصیات میں سے تھیں۔ بڑے بڑے پہاڑوں کے درمیان اس دنیا سے چھپی یہ ایک عجیب سی جگہ تھی جس میں طرح طرح کے لوگ رہتے تھے جن میں بچے،بوڑھے ،مرد ،عورتیں، جادوگر، جادوگر نیاں شامل تھیں اور یہ لوگ کسی خاص مذہب کے پیروکار نہیں تھے بلکہ یہ کہنا غلط بھی نہ ہوگا کہ یہ لوگ مذہب کے نام سے بالکل بے خبر تھے۔ ان کا حاکم و مالک وادی عشق کا بادشاہ بے وفا تھا۔ بےوفا نہایت ہی قابل حاکم تھا اور اس کی بادشاہت کو چار چاند لگانے والی تھی اس کی ملکہ ستمگر اور ان کی ایک خوبصورت بیٹی، شہزادی جفا تھی۔
شہزادی جفا کا ماننا تھا کہ "محبت بار بار ہوتی ہے لیکن عشق ایک بار ہوتا ہے ۔ محبت پہلی نظر میں ہوجاتی ہے، لیکن اس کو عشق کا مقام دینے کے لیے محبت کو کئی مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ محبت اندھی ہوتی ہے، لیکن عشق کھلی آنکھوں سے کیا جاتا ہے۔ عشق محبت کی شدت ہے۔ عشق عبادت بھی ہے ، عشق غم بھی ہے اورعشق ہی صنم بھی ہے”
یہ ایک ایسی وادی تھی جہاں عاشق اپنے محبوب کو پوجتا تھا۔ یہ عشق اس وادی میں اس قدر بس گیا تھا
کہ ہر ایک فرد کا عاشق یا محبوب بن جانا ایک شرطِ زندگی بن چکی تھی۔ یہاں ہر کسی کو عشق کا مزہ چکھنا تھا اسی لیے اس سنہری وادی کا نام ہی وادی عشق رکھا گیا تھا۔ اس وادی کی بڑی عجیب بات یہ تھی کہ دو عشق کرنے والوں کی آپس میں شادی نہیں ہو سکتی تھی اور یہ بادشاہ بے وفا کا فرمان تھا جس کی عدولی کرنے پر وقت کے قاضی غیر عادل نے موت کی سزا مقرر کی تھی۔
اس عشق کی وادی میں لوگ وفا کے نام سے بالکل بے خبر تھے۔ ان کی نظر میں عشق کی کتاب بے وفائی کے قصوں سے بھری پڑی ہےجہاں ہر ورق پر بے وفائی لکھی ہے۔ عشقاوروفا دو الگ الگ راستے ہیں اور محض عشق کا راستہ چن لینا یہاں کی مجبوری تھی جو اب عادت میں تبدیل ہو چکی تھی۔ وادی عشق میں رہنے والے لوگوں کے دل چھلنی تھے، ان کے دل میں درد تو تھا لیکن وہ اس درد کا اظہار نہیں کر سکتے تھےاور اس درد کو اپنے دل میں دبا لینا ان کی عادت بن چکی تھی۔ جس عشق میں وفا نہ ہو ،وہ عشق کس کام کا۔ عشق ان کا ظاہر و باطن تھا، ہر شے کا موضوع عشق سے شروع ہوتا تھا اورعشق پر ہی ختم ہو جاتا تھا۔ لیکن بات صرف عشق کی نہیں، بات وفا کی بھی ہے اور جو لوگ لفظ وفا سے بالکل بے آشنا تھے ان پر بے وفائی کا الزام لگانا بھی سراسر غلط تھا۔ ان کی نظر میں عشق محبوب کو پوچنا، تنہائی میں محبوب کا ساتھ نبھانا اور محبوب کے غموں کو گلے لگانے تک ہی محدود تھا لیکن اگر کوئی عاشق کسی اور کی محبت کو پانے کے لئے ان سب چیزوں کو نظر انداز کر دیتا تو وہ گنہگار نہ تھا کیونکہ واری عشق میں وفا اپنی جگہ بنانے میں ناکام ثابت ہو چکا تھا اوروفا مانگنے والوں کی سزاۓ موت پہلے سے ہی طے تھی۔
وادی عشق کا بادشاہ بے وفا اپنی ملکہ ستمگر اور شہزادی جفا کے ہمراہ اپنے قافلے کے ساتھ جنگل کی سیر کر رہے تھے کی اچانک ان کی نظر ایک چرواہے پر پڑتی جاتی ہے اور قافلے کو روکنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ ایک اجنبی چرواہے کو دیکھ کر بادشاہ بے وفا کافی غصہ ہو جاتا ہے اور وہ سپہ سالار کو اس کی گرفتاری کا حکم دیتا ہے۔ چرواہا وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والا ایک سیدھا سادہ اور دین دار نوجوان وفا تھا ۔ وفا اپنی بھیڑ بکریاں چراتے چراتے وادی عشق کی سرزمین میں داخل ہونے کی غلطی کر بیٹھا تھا۔ صبح کی نماز فجر پڑھ کر گھر سے بھیڑ بکریاں لے کر وفا جنگل کی طرف روانہ ہوا تھا اور اس کو پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ کس طرح وادی عشق میں داخل ہوا۔ سپہ سالار نے وفا کو گرفتار کیااور بے وفا کی خدمت میں پیش کیا۔ بادشاہ بے وفااور ملکہ ستمگر نے فرمان جاری کیا کہ وفا کو باعزت اور احترام کے ساتھ کل دربار میں پیش کیا جائے۔ وفا پر کہر ٹوٹ پڑا تھا اور شہزادی جفا یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ جفا کے دل میں وفا کیلئے بے قراری بڑھنے لگی اور جفا کو ایسا لگا کہ وفا کے ساتھ اس کو عشق ہوا ہے۔ وفا اپنی گرفتاری کے غم میں رو رہا تھا، ایک نئی مصیبت وفا کے گلی لگ چکی تھی۔ وفا گھر میں اپنی بیمار بوڑھی ماں کے بارے میں سوچنے لگا اور دل ہی دل میں اللہ سے اپنی رہائی کی دعا مانگتا رہا۔
اگلے دن وفا کو بادشاہ کے دربار میں حاضر کیا گیا۔ بادشاہ بے وفا اپنے ملکہ ستمگر اور شہزادی جفا کے ہمراہ اپنے دربار میں بیٹھا تھا۔ وفا سے وادی عشق میں داخل ہونے کی وجہ پوچھی گئی۔ وفا نے اپنی غلطی مانتے ہوئے بادشاہ بے وفا کے سامنے اپنی رہائی کی بھیک مانگی۔ بادشاہ نے قاضی غیر عادل کی طرف اشارہ کیا۔ غیر عادل نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا وفا کو قید میں رکھنا مناسب نہ ہو گا، البتہ وفا کی آگے والی زندگی اب ہمارے ساتھ واری عشق میں بسر کرنی ہو گی اوروفا کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہاں کے رسم و رواج سے جلد از جلد خود کو آگاہ کرے۔ وفا کو قاضی غیر عادل کا یہ فیصلہ قبول نہ تھا لیکن کر بھی کیا سکتا تھا ، وادی عشق کے قوانین کی خلاف ورزی نہتے وفا کے بس کی بات نہ تھی۔
بے بس وفا وادی عشق کی دلکش فضاؤں میں اپنی زندگی کی ایک نئی صبح شروع کرنے جا رہا تھا اور وہ اس سفر میں بالکل تنہا تھا۔ اس کے ساتھ جُڑی تھی اپنے گھر کی یادیں اور اپنی بیمار بوڑھی ماں کی جُدائی اسے برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ شہزادی جفا، وفا کے اس حال کو خوب سمجھ رہی تھی گویا اس کے دل میں وفا کے لیے محبت بیدار ہوچکی تھی اور شہزادی جفا یہ سب حالات اپنی سہیلی خفا کو سنا رہی تھی اور خفا کے دل میں بھی وفا کے لیے ہمدردی پیدا ہوئی۔
وفا نے وادی عشق کا جائزہ لینا شروع کیا اور یہ دیکھ کے بڑا حیران ہو جاتا ہے کہ کس طرح یہاں کے لوگ اپنے محبوب کی پوجا کرنے میں محو ہیں۔ یہ وادی عشق کی قدیم روایت تھی کہ ایک عاشق اپنے محبوب کو سامنے رکھ کر اس کو پوجتا تھا اور اس طرح اپنی محبت کا حق ادا کرتا تھا۔ ایک دین دار انسان کا یہ سب دیکھنا بالکل قابل مذمت تھا لیکن وفا مجبور تھا اور اسی مجبوری میں اپنے اللہ کو یاد کرنے کے لیے اس نے ظہر کی نماز پڑھنی شروع کی۔ گویا وادی عشق میں یہ پہلی بار ہو رہا تھا چنانچہ کچھ ہی مدت میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے وفا کو گھیر لیا اور ساتھ ہی میں بادشاہ بے وفا تک یہ خبر پہنچا دی گئی۔ وفا اپنی نماز میں مشغول تھا اور اس نئی عمل کو جاننے کے لیے لوگ بے قرار ہوکر وفا کی نماز ختم ہونے کے منتظر تھے۔ وفا نے نماز ختم کی اور لوگوں کے اتنے بڑے ہجوم کودیکھ کر بہت پریشان ہوا۔ اتنی دیر میں وقت کا حاکم بھی تشریف لا چکا تھا اوروفا سے اس نئے عمل کے بارے میں پوچھا گیا۔ وفا نے جواباً کہا کہ میں اپنے محبوب(رب) کی پوجا کر رہا تھا ٹھیک اسی طرح جس طرح یہاں کے لوگ اپنے دنیاوی محبوب کو پوجتے ہیں۔ بادشاہ بے وفا نے بڑی حیرانی سے پوچھا کہ ہمارا محبوب تو ہماری نظروں کے سامنے رہتا ہے اور آپ کا محبوب کہاں ہے؟ اگر خدا موجود ہے تو کیوں نظر نہیں آتا؟ وفا کہتا ہے کہ خدا اس لئے نظر نہیں آتا کہ انسان اسے دیکھنے کی تاب نہیں رکھتا اور حضرت موسیؑ کا قصہ بیان کرتا ہے۔ خدا کے نہ دکھائی نہ دینے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ خدا اگر اس کائنات میں کسی مقام پر موجود ہو کر خود کو ظاہر کر دے تو وہ زمان و مکان میں مقید اور محدود ہو جائے گا جبکہ خدا تو زمان و مکان سے ماورا ہے۔
یہ باتیں وعدے عشق کے لوگوں کے دماغ سے لڑ رہی تھیں، وہ وفا کی باتوں کو نہیں سمجھ پا رہے تھے اور ان کی نظر میں وفا اپنا دماغی توازن کھو چکا تھا۔ وفا سب سے دین اسلام کی پیروی کی رجوع کرتا رہا اور کہتا گیا کہ خدا کو ہی حقیقی محبوب ماننے میں وادی عشق کی کامیابی کا راز ہے۔ بادشاہ بےوفا غصے سے آگ بگولا ہوا اوروفا سے اپنی بے ہودہ بکواس بند کرنے کو کہا۔ بادشاہ نے کہا آپ کو اپنا محبوب مبارک ہو اور ہمیں اپنا دین مبارک ہو۔ وفا نے بہت کوشش کی پر اس کی ہر کوشش ناکام ثابت ہو رہی تھی۔
شہزادی جفا نے بالآخر وفا کے سامنے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ جفا کس طرح وفا کا ساتھ نبھائے گی یہ غورو فکر کرنے والی بات تھی۔ وفا مجبور تھا اور جانتا تھا کہ جفا وقت کی شہزادی ہے اور اس کو انکار کرنا گویا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ وفا جفا کے محبت نامے کو قبول کرتا ہے اور اسے دین اسلام کی تربیت دینے کا عمل شروع کرتا ہے۔ وفا نے جفا کو اللہ کے حضور پوچنے کی نصیحت کی جو شہزادی جفا آرام سے مان گئی اور جفا نے اسی وقت سے اپنا حقیقی محبوب اللہ کی ذات مقدس کو مانا اور اس کی عبادت میں محو ہو گئی۔ جفا کو وفا سے سچا عشق ہوا تھا اور جفا عشق میں ایک پروانے کی طرح تھی جو شمع کےلۓ ہر وقت اپنے آپ کو جلانے کے لئے بالکل تیار بیٹھی تھی۔ وفااور جفا کے عشق کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا اور جفا کو یقین تھا کہ ایک دن وفا اس کا ہو کر ہی رہے گا۔
ہماچل کے پہاڑوں میں ایک ایسی وادی اور تھی جس کا نام وادی جدا تھا۔ وہاں کا بادشاہ اپنے بیٹے کے ہمراہ حاکم بے وفا سے ملنے کے لۓ وادی عشق میں تشریف لاتا ہے۔ دربار سجایا جاتا ہے۔ دربار میں شہزادی جفا کی ملاقات وادی جدا کے شہزادے کے ساتھ ہو جاتی ہے۔ پہلی ہی نظر میں وادی جدا کا شہزادہ جفا کے پیار میں گرفتار ہو جاتا ہے ۔وہ دل ہی دل میں اس کو اپنی شہزادی تسلیم کر لیتا ہے اور یہ بات اپنے والد کو بتا دیتا ہے اور وہ حاکم بے وفا سے اس کی بیٹی کا ہاتھ مانگا ہے۔ حاکم بے وفا یہ سن کر بے حد خوش ہو جاتا ہے اور یہ بات اپنی ملکہ ستمگر اور شہزادی جفا کو سنا دیتا ہے۔ جفا پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے اور اس کے دل میں وفا کا خیال آجاتا ہے۔ اپنے سجائے ہوئے خواب اسکو بار بار وفا کی یاد دلانے پر مجبور کر رہے تھے۔ جفا دربار سے بھاگ کر سیدھے وفا کے پاس چلی جاتی ہے اور سارا قصہ اس کے سامنے بیان کرتی ہے۔ وفا جو خود اس وادی میں اجنبی تھا اور اپنی رہائی کی آس میں زندگی گزار رہا تھا کافی مایوس لہجے میں جفا کو وادی جدا کے شہزادے کو اپنانے کا مشورہ دیتا ہے جس پر شہزادی جفا بھڑک اٹھتی ہے گویا اس کے لئے وفا ہی سب کچھ تھا۔ شہزادی جفا نے وفا کو وادی عشق سے فرار ہونے اور ملک کشمیر چلنے کا مشورہ دیا۔ وفا یہ سن کر کافی خوش ہوا کیونکہ اس کو اِس محبت سے زیادہ اپنی بوڑھی ماں کی فکر اندر ہی اندر ستا رہی تھی اور دونوں وادی عشق کو چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور اپنی منزل کی طرف نکل پڑتے ہیں۔
وادی عشق کی حفاظت کا کام جادوگر ظالم کے ذمہ تھا۔ ظالم کو دونوں کے بھاگ جانے کا علم ہو جاتا ہے اور وہ وادی عشق کی سرحد پر دونوں کا انتظار کرتا ہے۔ جیسے ہی وفااور شہزادی جفا وادی عشق کا آخری پڑاو یعنی سرحد کو پار کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اپنے آپ کو جادو کی زنجیروں میں جکڑا ہوا پاتے ہیں۔ جادوگر ظالم دونوں کو بادشاہ بےوفا کے دربار میں حاضر کرتا ہے اور ان دونوں کے بھاگنے کا راز بادشاہ کے سامنے افشا کرتا ہے۔ قاضی غیر عادل کو دربار میں بلایا جاتا ہے۔ بادشاہ اپنی بیٹی جفا کی غلطی پر بڑا شرمندہ تھا۔ وفااور جفا کو قاضی کے سامنے کھڑا کردیا جاتا ہے اور دونوں بنا کسی ججک کے اپنا جرم قبول کرتے ہیں۔۔ جی ہاں! عشق میں وفا کا جرم، عشق میں کئے گئے وعدوں کے نبھانے کا جرم، ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹنے کا جرم اور سب سے بڑا جرم ایک دوسرے کو اپنا جیون ساتھی بنانے کا۔۔۔ بادشاہ نے آنسو بھری آنکھوں سے قاضی کو فیصلہ سنانے کا حکم دیا۔ فیصلہ پہلے سے ہی طے تھا ۔ وادی عشق کے قانون کے مطابق قاضی نے وفااور شہزادی جفا کو سزائے موت کا حکم سنادیا۔ ملکہ ستمگر نے اپنی بیٹی جفا کو گلے لگایا اور بادشاہ وقت سے اس کی جان کی بھیک مانگنے لگی لیکن بادشاہ بے وفا پر کوئی اثر نہ ہوا، وہ ایک بہادر اور نڈر بادشاہ تھا۔ دونوں کے لیے پھانسی کا پھندا تیار ہو رہا تھا اور دونوں سے آخری خواہش پوچھی گئی۔ دونوں کی خواہش تھی کہ دربار میں ان کی شادی کی رسم ہو اور پھر اس کے بعد ان کی پھانسی ہو۔ بادشاہ نے یہ خواہش مسترد کردی کیونکہ یہ خواہش بالکل وادی عشق کے رسم و رواج کے خلاف تھی اور آج تک اس وادی میں دو عشق لڑانے والوں کی شادی نہ ہوئی تھی اور نہ کبھی ہوگی۔
وفا کو اپنی بوڑھی ماں کی فکر بے حد ستا رہی تھی۔ یہ اس کی زندگی کے آخری پل تھے اوروفا بس اپنے خدا کو یاد کر رہا تھا۔ پھانسی کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھی۔ جفا اوروفا کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا۔ بادشاہ بےوفااور ملکہ ستمگر اپنی بھیگی ہوئی آنکھوں سے یہ پورا سماں دیکھ رہے تھے۔ وفااور جفا کی سانسیں دیرے دیرے نکل رہی تھی اور کچھ ہی دیر میں وفااور جفا اپنی زندگی کی کشمکش ہار چکے تھے اور دونوں نے اس دنیا کو الوداع کہا۔ ملکہ ستمگر کہتی ہیں کہ مرتے مرتے وفااور جفا کے لبوں پر یہ شعر گنگنا رہا تھا۔۔۔۔
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے ( مرزا غالب)
زبردست افسانہ