222

”امیر کبیر،علی ثانی، شاہِ ھمدان، سید علی ہمدانی ؒ، کشمیر میں“

رشید پروین سوپور

بے انتہا خوبصورت،لازوال حسن اور ابدی سر مدیوں کی سر زمین، جس سے یقینی طور پر خالق کائنات نے ساری زمین پر اپنے ایک شاہکار کی مانند تخلیق کیا ہے۔ اونچائیوں کے لحاظ سے بھی کشمیر کوسر کے تاج کا سب سے اونچا ، انمول اور قیمتی پر بنا کر اس تاج میں سلیقے سے سجاکر اپنی مصوری کا بہترین اور عظیم مظاہرہ کیا ہے اور اسی مناسبت سے ایک دور میں سالار عجم حضرت سید علی ہمدانی ، علی ثانی کو بھی اپنے غیبی اشارے سے یہاں اسلام کی مشعل فروزاں کرنے کا عندیہ دیا جس نے سات سو سے زیادہ سادات پُر کمال و پر جمال کے ساتھ یہاں تک دشوار گذار راستوں کو طئے کر کے دین اسلام ، امن و شانتی اور اللہ کے پسندیدہ دین کی روشنیوں کو قریہ قریہ اور شہر شہر پہنچا کر اس سر زمین کو منور کیا ، گویا اس سرزمین کی حیثیت کے مطابق ہی اتنی بڑی اولالعزم شخصیت کا انتخاب ہوا جس نے یہاں کے ذرے ذرے کو چاند ستاروں کا شرف بخشا ،کشمیر کو ریشی منیوں اولیاا ور اللہ کے برگزیدہ بندوں کی سر زمین سے موسوم کیا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سر زمین اللہ کے عظیم اور باکرامات بڑے بڑے اولیا اور ریشی منیوں کا مسکن رہی ہے۔ حضرت ؒ کی تشریف آوری اور بعد میں اسلامی دور میں ہزاروں باکمال سادات نے یہاں اپنی آرام گاہوں سے اس مٹی کو جو شرف عطا کیا ہے اس کا کوئی اندازہ نہیں اور اس طرح کشمیر نہ صرف دنیا کی حسین دلہن کے ماتھے کا جھومر ہے بلکہ یہاں ہزاروں با کمال سادات اور اللہ کے بر گزیدہ (نند) معنی بہت ہی خوبصورت اور حسین ریشی، باکمال صوفی چاند ستاروں کی مانند تاباں ہیں۔
کشمیر کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ اس سر زمین کا وجود ہی ایک عظیم ریشی،” کشپ“ سے جڑا ہے ،دراصل یہ ریشی بھی اپنے زمانے میں اللہ کا بر گذیدہ اور مقام اعلیٰ پر فائز ریشی رہا ہوگا ، اور رینچن اللہ کے منشاءکے مطابق (مو¿رخ حسن شاہ کے مطابق) چار ہزار چار سو پنتالیس برس کے بعد مسلمان ہوا تو اس کا نام ملک صدرالدین ہوا ، جس کامطلب ہی ”دین کا سمندر “بنتا ہے ،اور اسی مناسبت سے اس خاص حسین ترین ، اور آماجگاہ، نور و روشنی کے آسمان میں کاتب تقدیر نے یہ فیصلہ دیا تھاکہ ان کے خاص الخاص اور لاکھوں صوفی اور علماءو فضلا اور متقیان و بزرگانِ دین کے آفتاب و ماہتاب ہی اسلام کی مقدس کرنوں کو اس بے نظیر سرزمین پر اپنے اصل اسلامی رنگ و روپ اور خدو خال میں سنوارے ، سلجھائے اور پیش کرے ۔ اس سے پہلے شریعت اور شرعی احکامات سے یاتو عوام نابلد ہی تھے یا کوئی زیادہ توجہ اس طرف نہیں دی جارہی تھی ، جس کی صرف ایک مثال کافی ہے کہ بادشاہ وقت قطب الدین کے نکاح میں بھی ایک ساتھ دو بہنیں تھیں اور امیر کبیر کے شرعی احکامات واضح کرتے ہی ایک بیوی کو طلاق دی۔ حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی کا نسب چودہ پشتوں سے حضرت امام حسین رضی اللہ اور والدہ ماجدہ کی طرف سے حسن مجتبیٰ رضی اللہ پر ختم ہوتا ہے ،ظاہر ہے کہ نجیب الطرفین اور فخر شرق غرب مانے جاتے ہیں ، آپ کے والد بزرگوار سید شہاب الدین، ہمدان کے حاکم تھے، اور والدہ ماجدہ کا نام فاطمہ تھا۔ حضرت کی ولادت پیر کے دن ۲۱ ماہ رجب المرجب۴۱۷ ھ بتائی جاتی ہے۔ یہ بھی حسن اتفاق دیکھئے کہ حضور دو عالم ﷺکا یوم ولادت بھی عام طور پر ۲۱ ہی کو تسلیم کیا جاتاہے اور دونوں دن پیر ہی تسلیم کئے جاتے ہیں۔ ا بتدائی تعلیم پہلے استاد حضرت سید علاو¿دین سے حاصل کی لیکن محظ کئی دنوں بعد ہی اپنے خالو شیخ شرف الدین مُزدقانی ؒ کے ہاں پہنچے ، اور پھر یہ سلسلہ چلتا رہا ، اور کہا جاتا ہے کہ اولیائے کرام میں سے تنتیس بزرگوں نے آپ کو ارشاد نامہ لکھ کر دیا۔ دراصل یہ ارشاد نامے یونیورسٹی کی اعلیٰ ڈگریاں ہی سمجھی جاسکتی ہیں۔
اس دوران امیر کبیر کی لاتعداد کرامات تاریخوں میں درج ہیں لیکن ایک مختصر سے مضمون میںان کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا ، تاریخ حسن میں ہے کہ آپ ؒ ماہ ربیع الاول ۴۷۷ھ شہاب الدین پورہ میں تشریف فرما ہوئے اور یہ تاریخ سید محمد خاوری نے تین مصرعوں میں کہی ہے ، وقائع کشمیر کے مصنف دیدہ مری لکھتے ہیں کہ حضرت امیر کے کشمیر میں تشریف آور ہونے کے وقت شہاب الدین بادشاہ کشمیر اپنی پانچ لاکھ افواج کے ساتھ ہندوستان فتح کرنے نکلا تھا اور حضرت سید تاج الدین اور سید حسن بہادر بھی ان کے ہم رکاب تھے اور کشمیر میں ان کا قائمقام سلطان قطب الدین تھا ، یہاں کچھ وقت گذار کر حج بیت اللہ کا ارادہ فرمایا۔ اگرچہ قطب الدین جو یہاں قا ئمقا م تھا ،نے حضرت کا شایان شان استقبال بھی کیا تھا اور انہیں بڑی شان و شوکت ، کمال عزت و احترام کے ساتھ ان کی مہمان نوازی بھی کی تھی، یہ دور چار مہینے پر مشتمل رہا ، فیروز پور پہنچ کر سلطان شہاب الدین اور سید تاج الدین سے ملاقات کی اور کچھ دن یہاں رہ کر فیروز شاہ بادشاہ دلی کا انتظار کیا اور بالآخر حضرت کی نظر عنایت سے دونوں نے ایک صلح نامے پر دستخط کئے اور اس طرح لاکھوں افراد کی جانیں بھی بچیں اور دونوں بادشاہ رشتوں میں بندھ گئے ،، مراسم حج انجام دینے اور عرب کے اطراف و اکناف کی سیر کے بعد حضرت امیر ہندوستان کے راستے ۱۸۷ھ کے اوائل میں پھر ایک بار اس بے پناہ حسن و تقدیس کی سر زمیں پر تشریف آور ہوئے جہاں آپ کو کار ہائے نمایاں انجام دینے تھے ۔ اس بار آپ کے ہمراہ سات سو سے زیادہ عظیم و باکمال و جمال سادات حضرات تھے جنہوںنے کشمیر کی سر زمین میں اسلامی انقلاب کے ساتھ ساتھ تہذیبی و تمدنی انقلاب بھی پیدا کیا ، اور حق یہی ہے کہ رینچن شاہ کے بعد پہلی بار یہ سر زمین رنگ و نور اسلامی تمدن سے آشنا ہورہی تھی اور دیکھا جائے تو یہی وہ مشن تھاجس کی خاطر حضرت یہاں تشریف فرماہوئے ، یہ سات سو علماءاور روحانی قوتوں سے مالامال بے مثال شخصیات کشمیر کے شہر شہر ، گاو¿ں گاو¿ں اسلام کے نور کو پھیلاتے رہے اور پھر آخر انہوں نے اسی پاکیزہ مٹی کو اپنی آخری آرام گاہیں بھی بنادیا۔ آپ ؒکی دوسری تشریف آوری اس وقت ہوئی جب کشمیر کے بادشاہ سلطان علاو¿ الدین تھے اور آپ ؒ محلہ علاوالدین پورہ کی مسجد میں جو خانقاہ معلیٰ کے متصل ہے قیام پذیر ہوئے اور اپنے ساتھیوں کو سلطان قطب الدین کی کاروانسرائے میں جگہ دلوادی۔ دوسری دفعہ کشمیر آنے کی تاریخ ، ”شکر کز، مقدم امیر کبیر۔۔باغ کشمیر ہمچو گل بشگفت،،ہاتف غیب سال مقدم را۔۔ ”آمد اینجا علی ثانی “ گفت (۰۸۷ھ) ہے ۔ حضرت امیر کے حجرہ خاص کی جگہ راجہ پرور سین کا تعمیر کرد ہ مندر تھا جس کا پجاری ایک باکمال پجاری شاپور برہمن تھا اور اپنا سارا وقت پوجا پاٹ ہی میں گذارا کرتا تھا۔ ایک روایت کے مطابق حضرت کا اس پجاری سے روحانی مجادلہ ہوا ، جس کے رد عمل میں پجاری اپنے تمام چاہنے والوں اور معتقدوں و چیلوں کے ہمراہ مسلمان ہوا اور قرین قیاس ہے کہ یہ وہی واقعہ ہوگا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ لا کھوں کی تعدادمیں ایک روز ہی مسلم ہوئے۔ اس دوران بھی علی ثانی حضرت امیر کبیر سے وابستہ کرامات کا شمار نہیں لیکن اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں تحریر کرنے سے معذور ہیں ۔ حضرت امیر کبیر علی ثانی اگر چہ سینکڑوں کتب کے مصنف ہیں اور”ذخیررة الملوک“ جیسی معرکتہ آرا کتاب بھی ان میں شامل ہے لیکن ان کے علاوہ وہ چھوٹی سی کتاب جو ان کا شاہکار کہی جاسکتی ہے جو اہلیان کشمیر کو خاص تحفے کے طور عنایت ہوئی ہے اور جو کہیں اور نہیں صرف اسی وادی حسن بے حسین کے لئے ابدی حسن اور تقدیس کی آماجگاہ ہے وہ اورادِ فتحیہ ہے ، جو قرآن حکیم کی آیات کریمہ ، اللہ کی بڑھائی اس کی وحدانیت اور اعلیٰ وظایف کا ایک انمول سر چشمہ ہے ،اس بار ڈھائی ۔۔تین برس کے درمیان یہاں رہے اور اللہ کے مشن کو پوری کامیابی کے ساتھ مکمل کیا ، اور یہ مشن یہی تھا کہ سنت رسول اللہﷺ کو عام کیا جائے۔ اسلامی قوانین اور شریعت احکامات قریہ قریہ اور گھر گھر پہنچ جائیں اور ان پر پابندی سے عمل کرنے کی تلقین ہو ، اسلامی رسوم کو جاری کرکے ہندوانہ اور کفر کے رسم و رواج کی بیخ کنی ہو ، اس سلسلے میں اوراد، فتحیہ کاروزانہ صبح کے اوقات میں ورود اور ہدایات بہت اہم ہیں ، کیونکہ دوسرے فوائد کے علاوہ چونکہ یہ وہ نسخہ ہے جو ہر صبح اس کے پڑھنے والے پر اللہ کی بڑھائی اور اس کے صفات کی یاد بھی دلاتا ہے اور اس مالک حقیقی کا ذات بے ہمتا ہونے کا شدت سے احساس بھی دلاتا ہے۔
۶۸۷ھ پکھلی تشریف لے گئے ،،سواد ۔ کُنر پہنچتے تو ۶ ماہ ذالحج کو اس جہانِ فانی کو الوداع کہا ، ، آپ کے انتقال کے بعد کشمیر اور دوسرے لوگوں میں میت کو دفنانے پر اختلاف رائے ہوا ، لیکن اسی دوران شیخ قوام الدین بدخشی نے فرمایا کہ غسل دیا جائے کفن پہنایا جائے اور اس کے بعد جو فرقہ تابوت اٹھائے گا وہی میت بھی ساتھ لے گا ،، تمام لوگوں نے کوشش کی کہ تابوت اٹھایا جائے لیکن ممکن نہیں ہوا ، کوئی ایک فرقہ مل کر بھی تابوت کوہلا نہیں پایا ، تو آخر میں خود و قوام الدین بدخشانی
نے اکیلے تابوت اٹھایا اور میت کو ختلان پہنچایا ،جہاں پانچ جمادی الثانی ۷۸۷ھ کو جسدِ مبارک سپرد خاک ہوئی اور تب سے ختلان کے نصیب میں مرجع نور اور عشق ومستی کی آماجگاہ ہونا مقدر بن گیا ،،، جو جھنڈا امیر کبیر ؒ نے شیخ محمد ازکانی سے حاصل کیا تھا اور حج کے دوران جو ان کے ساتھ تھا، اس جھنڈے اور عصائے شریف کو تلاش کرکے دیوی گنائی اور لدی ماگرے کشمیر لے آئے اور ان تبرکوں کو اس جگہ رکھا جس پر حجرہ خاص تعمیر ہوا تھا ،،،

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں