164

مجھے اُستاد بننا پڑے گا

ڈاکٹر محی الدین زورؔ کشمیریۣ

Education has for its object the formation of character (Herbert Spencer)
برسوں بعد میں اپنے ایک پرانے دوست سے ایک محفل میں ملا اورسلام کلام کے بعد انہیں ان کے بچوں کا حال چال پوچھا۔ اس بیچ میں وہ مجھے سنانے لگے:
میری اکلوتی بیٹی ہے۔ اچانک انہوں نے اسکول جانے سے انکار کر لیا اور گھر میں اپنی ممی سے لڑنے جھگڑنے لگی۔ میں نے انہیں سمجھانے کی لاکھ کوشش کی، مگر وہ کسی کی نہیں سنتی تھی اور اکثر تنہا رہتی تھی۔ کبھی کبھار روتی بلکتی تھی اور کبھی سخت شور مچاتی تھی، کھانا بھی ٹھیک طرح سے نہیں کھالیتی تھی، نہاتی بھی نہیںنہ کسی سے ملنا جلنا پسند کرتی تھی۔ میں خود پریشان ہو گیا کہ میری بیٹی کو آخر ہوا کیا۔ ڈانٹ ڈپٹ سے بھی انہیں کچھ فرق نہیں پڑگیا۔ میرے رشتہ دار آگئے اور انہوں نے مجھے کہا کہ اس پر پریوں کا سایہ ہے۔ کسی نےکہا جنات کا اثر ہے اور مشورہ دینے لگا کسی خدا دوست پیر بابا کے پاس اسے لے چلو۔ یعنی جتنے منہ اتنی باتیں۔!
آخر کار میں نے اپنی بچی کو ذہنی امراض کے ڈاکٹر کے پاس علاج کروالنے کے لئے لے لیا۔ ڈاکٹر نے میری لڑکی کو دیکھا اور مجھ سے میری لڑکی کے بارے میں کچھ سوالات پوچھے اور اس کے بعد مجھ سے کہا کہ آپ ذرا باہر نکل جایئے۔
کچھ دیر کے بعد انہوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ اس بند لفافے میں میری ایک رپورٹ ہے۔ آپ اسی وقت جایئے اور پولیس تھانے میں اس لڑکی کی فلاں استانی کے خلاف F.I.R درج کروادیجئے۔وہ استانی اس بچی کو بلا وجہ تنگ کرتی ہے، باقی کلاس کی بچیوں کی موجودگی میں اس کی بے عزتی کرتی ہے، تعنے دیتی ہے یہاں تک کہ اسے مارتی بھی ہے، اس کے جسم پر زخموں کے کئی نشانات بھی موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ کی بچی اسکول جانے سے انکار کرتی ہے اور ہمیشہ گم سم رہتی ہے۔ آپ کے سمجھانے پر وہ کچھ بھی نہیں سنتی ہے۔ میں نے دوائی لکھی ہے۔ اسے وقت وقت پر کھلا دیجئے۔ کوئی فکر نہیں مگر اس اُستانی کو سبق سکھا دیجئے تاکہ وہ کسی اور بچی کے ساتھ ایسا ناروا سلوک نہ کر پائے۔
میں چونکہ خود ایک اُستاد ہوں اور اس شش و پنج میں پڑگیا کہ اس معاملے کا کیا جائے۔ ایک استاد دوسرے استاد کے خلاف کیسے F.I.R. درج کرے گا۔ دوم اگر میں خود سرکاری اسکول کا ماسٹر ہوں تو میری بچی کیوں کسی پرائیویٹ اسکول میں پڑھتی ہے۔ وہاں جاکر کیسے اس اُستانی یا کسی اور استاد کو پڑھانے کا ڈھنگ یا بچیوں کے ساتھ سلوک کرنے کے بارے میں لیکچر دوں گا، وہ لوگ ضرور کہیں گے کہ تمہارے اسکول تو ناکام ہیں اگر تم کامیاب ٹیچر ہوتے۔ تمہارے پڑھانے کا طریقہ اچھا ہوتا، تمہارا نظام تعلیم ٹھیک ہوتا،تو یہاں ہمارے چھوٹے بڑے اسکولوں میں اپنے بچوں کو کیوں بھیجتے؟ اپنے سرکاری اسکولوں میں بچوں کو رجسٹر رکھتے ہو اور ان بچوں کی پڑھائی ہمارے اسکولوں میں کرواتے ہو تاکہ آپ کے اسکولوں کا رزلٹ اور نام اچھا آئے گا۔ عوام کو دھوکے میں رکھتے ہو اور اپنی نوکری کی صرف حفاظت کرتے ہو؟۔۔۔
اتنا ہی نہیں وہ استانی میری پڑوسن دو بچوں کی ماں ایک مطلقہ عورت ہے اور آج اپنے بھائی کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے بچوں کے ساتھ رہتی ہے اور اسی معمولی سی اُجرت سے اپنے گھر کا گذارہ کرتی ہے، میری شکایت سے اس کا یہ آخری سہارا بھی چھن جائے گا۔ یہی سوچتے سوچتے مجھے لگا جیسے پولیس مجھے پکڑ رہی ہے اور عام لوگ مجھ پر ڈھنڈے برساتے ہیں۔۔۔
میں ہوش میں آگیا اور یہ فیصلہ لے لیا کہ میں آج تک بس نوکری کرتاتھا اب مجھے ایک استاد بننا پڑے گا اور پچھلے گناہوں سے توبہ کرلوں گا، عزت کے ساتھ اسکول جاؤں گا اور اپنی بچی کا ڈسچارج سرٹیفیکیٹ وہاں سے نکال کر اسے اپنے اسکول میں داخل کرلوں گا۔ باقی کسی کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ کچھ دوائی نے بھی اپنا اثر دکھایا اور میرے اپنے اسکول میں داخلہ لینے کے بعد اسکول کی باقی بچیوں نے میری بچی کے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک کیا۔ اسے وہاں موجود باقی غریب گھرانوں کی لڑکیوں نے اپنے ہاتھ سے کھلایا پلایا، نہلایا دھلایا۔۔۔۔
تو اس طرح کچھ ہی دنوں میں میری بیٹی کی دنیا ہی بدل گئی اور وہ پہلے سے زیادہ ہنسنے کھیلنے لگی اور پڑھائی میں بھی وہ اول آنے لگی۔!
دوستو! اس کہانی سے مجھے کچھ باتیں کہنی ہیں کہ ایک استاد کسی بھی لیول پر غلطی کر سکتا ہے، چاہے وہ نچلے کلاسوں کو پڑھاتا ہے یا اعلا کلاسوں کو۔ وہ چاہے سرکاری ٹیچر ہو یا پرائیویٹ تعلیمی ادارے کا۔ اچھے بُرے لوگ دونوں جگہوں پر موجود ہوتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ انسان بُرا ہے یا اس کا پیشہ۔۔ یہ کہنا آسان ہے کہ میں رشوت نہیں لیتا ہوں کیونکہ مجھے لینے کا موقع نہیں ملتاہے۔ اب جبکہ کسی کو لینے کا موقع ملے گا پھر وہ اس کو ٹھکرائے گا۔ تب بات ہے۔۔!
جارج آرویل کا مشہور ناول ہے Animal Farm "جانورستان” ۔ اس ناول میں تمثیلی انداز میں یہ بتایا گیا ہے کہ انقلاب روس 1917ء کے بعد کمیونسٹوں نے بھی وہی کیا جو ظالم بادشاہ زارؔ عوام کے ساتھ کرتا تھا۔ خون خرابے/انقلاب کا کیا فائدہ ہے۔ کچھ بھی نہیں صرف نام تبدیل ہو گیا ہے۔ اسی طرح فیض احمد فیض نے بھی 1947 آزادی اور پاکستان بننے کے بعد وہاں کے حالات کے پیش نظر لکھا ہے
یہ داغ داغ اُجالا یہ وہ سحر تو نہیں۔۔۔
بقول مرحوم مقبول ساحل ہم کشمیریوں نے اپنوں کو ہی زیادہ گہرے گھاؤ دے دیئے۔
آپ مجھے پوچھیں گے کہ کہاں آپ نے تعلیم اور ماسٹر ماسٹری کی بات شروع کی اور یہاں سیاست بکنے لگے۔۔۔! سیاست سے مجھے بھی چڑ ہے مگر کیا کروں "دل ہے کہ مانتا نہیں”۔ کشمیر میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ پیر صاحب مفت کا کھانا یعنی دوسروں کا یا مریدوں کا کھانا خوب کھاتے ہیں۔ اپنے گھر میں قناعت سے کام لیتے ہیں لیکن اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پیر صاحب بڑا تعصبی ہوتا ہے۔ دوسروں کی ترقی خاص کر پڑھائی اور نوکری کے معاملے میں دیکھنا ہی نہیں چاہتا ہے۔ یہ بھی کچھ منہ پھٹ لوگ کہتے ہیں کہ پیر صاحب بڑا مہذب ہوتا ہے، مگر صرف اپنے خاندان کے لئے۔ اکثر عام لوگوں کو "تم” کہہ کر پکارا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ دوسروں کا شاٹ نیم لینا ہی پسند کرتا ہے اور اپنایا اپنے کسی رشتہ دار کا نام پورے ایک جملے میں قرات کے ساتھ لیتا ہے۔ یہ سبھی باتیں تو ٹھیک ہیں، مگر بہت سارے پیروں نے پیری تو چھوڑ لی اور اب ان کی جگہ نان پیروں نے لے لی۔ تعجب کی بات ہے کہ ان کے عادات و اطوار، حرکات و سکنات۔ اندرونی باہری خصائل۔۔۔ تمام تر اصل پیروں جیسے ہی ہیں۔ اب میرے لئے یہ اُلجھن برقرار ہے کہ انسان کے خصائل بُرے ہیں یا اسے یہ چیزیں پیشے یا کسی کی صحبت سے پیدا ہوتےہیں۔!
اب آتے ہیں ہم پھر اپنی اصل بات پر جہاں میں نے کہا کہ ایک اُستانی (جوکہ پرائیویٹ اسکول میں پڑھائی تھی اور اس کی اپنے شوہر سے نہ بنی، جس کی وجہ سے اس کا طلاق ہو گیا) نے کسی بچی کے ساتھ ناروا سلوک کیا جس کی وجہ سے اُس لڑکی کے باپ کےہوش ٹھکانے پر آگئے۔
میرے نزدیک اُستاد جس کیپیسٹی میں پڑھائے گا اسے استاد ہی سمجھے گا۔ دوم اس پیشے میں آنے کے بعد اس کے ایسے خصائل خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں۔ اب چونکہ پرائیویٹ اسکولوں میں انتظامیہ کی کڑی نظر رہتی ہے کیونکہ ان پر والدین کا دباؤ ہمیشہ بنا رہتا ہے۔ اس خوف کی وجہ سے پرائیویٹ اسکول ٹیچرس تھوڑے بہت ہوش میں رہتے ہیں حالانکہ پچھلے دنوں سے پرائیویٹ اسکولوں میں بھی جرائم کے بہت سارے واقعات پیش آگئے جس کی وجہ سے والدین اب سخت پریشان ہیں کہ ان کے بچوں کی تعلیم کا کیا ہوگا ان کے بچے کہاں محفوظ ہیں؟
ان تمام باتوں کے پیش نظر ایک استاد کو ایک بار پھر اپنے آپ کا محاسبہ کر لینا چاہئے۔ ورنہ سماج میں آج انہیں جن نظروں سے دیکھا جاتا ہے کہیں کل ایسا نہ ہو کہ یہ کشتی ایسے ڈوبے گی کہ اس کا پھر کہیں پتہ ہی نہیں چلے گا۔ !

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں