فاضل شفیع بٹ
اکنگام انت ناگ
جرنلزم یا صحافت محض ایک پیشہ نہیں بلکہ ایک عبادت اس معنی میں ہے کہ ایک کہنہ مشق اور دیانتدار صحافی اپنا فرض منصبی بہ طریقِ احسن سر انجام دیتا ہے اور اپنے پیشے سے رزق حلال کماتا ہے۔ یہ جمہوریت کا ایک ستون بھی مانا جاتا ہے۔ ہندوستان میں اردو صحافت کے آغاز کا سہرا مولوی محمد باقر دہلوی کے سر باندھا گیا ہے جو تحریک آزادی کے لیے شہید ہونے والے پہلے صحافی تھے۔
انٹرنیٹ کی آمد کے ساتھ ہی آن لائن جرنلزم یا ڈیجیٹل جرنلزم صحافت کے شعبے کا ایک مزید حصہ بن کر بڑی تیزی سے اُبھر آیا ہے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں اداراتی مواد انٹرنیٹ کے ذریعے مختلف پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، یوٹیوب وغیرہ پر تقسیم کیا جاتا ہے۔ شعبہ صحافت کے اس نئے میڈیم کا فائدہ یہ ہے کہ ماضی میں انتہائی مہنگا کام سمجھنے والا ابلاغ انتہائی قلیل لاگت سے بہت دور تک بآسانی پہنچایا جا سکتا ہے۔ ماضی میں اخبارات، مجلوں، ریڈیو اور ٹیلی ویڑن کی دسترس میں موجود اطلاعات ڈیجیٹل صحافت کے ذریعے اب جلد اور زیادہ سہولیت سے لوگوں تک پہنچائی جا سکتی ہیں۔
جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ کی آمد کے ساتھ ساتھ دھیرے دھیرے ڈیجیٹل جرنلزم بھی یہاں کی صحافت کا ایک حصہ بننے میں کامیاب رہا۔ آن لائن جرنلزم یہاں کے بہت سارے بے روزگار نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے روزگار فراہم کرنے کا ایک وسیلہ ثابت ہوا۔ صحافت میں انٹرنیٹ کی آمد گویا ایک تیز ترین ریلے سے کم نہ تھی۔ انٹرنیٹ نے صحافت کے پیشے کو ایک ناقابل یقین درجے تک تبدیل کیا بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ انٹرنیٹ نے صحافت کے مضبوط ترین درخت پر رنگ برنگی پیوند کاری کی جس سے اس کی شاخوں میں بے تحاشہ اضافہ ہونے لگا۔ یہ وہ ریلہ تھا جس کے نتیجے میں بے شمار خود ساختہ صحافیوں کا جنم بھی ہوا۔ یہ ایسے صحافی ہیں جنہوں نے انٹرنیٹ کا غلط فائدہ اٹھا کر، ہاتھوں میں مائیک لے کر اور ساتھ میں کیمرا مین لے کر صحافت کی شروعات کی۔
صحافت جیسے عظیم پیشے کی اہمیت و افادیت کو بالائے طاق رکھ کر خود ساختہ صحافی آن لائن جرنلزم پر قابض ہوا۔ ایک معمولی سی معمولی خبر کو یہ لوگ ایک غیر معمولی درجے تک اچھالنے کا خوب فن رکھتے ہیں۔ بعض اوقات یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ان خود ساختہ صحافیوں کی خبروں میں کوئی سچائی نہیں ہوتی مگر اس کی تشہیر میں تْم تڑاک بہت ہوتا ہے۔
جموں و کشمیر کی ریاست میں صحافت کی ترویج و ترغیب کے لیے بہت سے عظیم صحافیوں نے اپنی جان کی بھی قربانی دی ہے۔ انہوں نے اپنے خون سے صحافت کے بغیچے کو سینچا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے آج ہماری ریاست میں صحافت کی کوئی قدر و قیمت نہ رہی ہے جس کی وجہ آن لائن صحافت سے وابستہ وہ خود ساختہ صحافی حضرات ہیں جن کو صحافت کے بارے میں زیادہ علمیت نہیں ہے، لیکن ہاتھ میں مائیک لے کر، زور زور سے چلا کر، شوہر بیوی کے نجی مسائل کو فیس بک پر اچھال کر اور یہاں تک کہ ناقص اور دماغی امراض میں مبتلا لوگوں کے ویڈیوز بنا کر اپنی اپنی چینلوں کو فروغ دینے میں مصروف ہیں۔
لوگوں کے دکھ درد کو اپنی خبروں یا رپورٹس کا حصہ بنانا، بلی کی موت کا ہنگامہ کھڑا کرنا، کمین گاہ کو کِیمَن گاہ اور تصادم آرائی کو تصدم آرائی کہنا آن لائن صحافیوں کی قابلیت کو صاف صاف ظاہر کر رہی ہے۔ کسی کے جنازے میں شریک صحافی یہاں بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے بلکہ ہاتھ میں مائیک لیے، جہاں باپ پُرنم آنکھوں سے اپنے بیٹے کو کاندھا دے رہا ہوتا ہے، وہاں بھی یہ زور زور سے فریاد کرتے رہتے ہیں کہ ” اس ویڈیو کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں”۔ کیا ایک انسان کا ضمیر اس قدر مردہ ہو چکا ہے کہ وہ ایک لا چار باپ کا درد بھی محسوس کرنے کی قوت سے محروم ہو گیا ہے۔
یہاں گراؤنڈ زیرو جرنلزم یا رپورٹنگ سب سے زیادہ مضحکہ خیز تماشا بن گئی ہے۔ اگرچہ یہ صحافت کے شعبوں میں بڑا معروف شعبہ ہے۔ مگر یہاں اس شعبے سے منسلک خود ساختہ صحافیوں کا کام ہے کہ کسی بھی خبر کی رسائی ملتے ہی اس سمت برق رفتاری سے بھاگنا ہے۔ خبر ملتے ہی یہ لوگ اس طرح بھاگتے نظر آتے ہیں جیسے تموڑی کا چھتہ گر گیا ہو اور وہ ڈنک مارنے کے لیے ہر سمت پھیل رہی ہوں۔ جس کی مثال حال ہی اونتی پورہ کا دل دوز سانحہ ہے۔ جہاں باپ اپنی جواں سال بیٹی کی بارات کا منتظر تھا، جس باپ کی بیٹی ہاتھوں میں مہندی لیے اپنے شوہر کی طاق میں منتظر تھی اور چند وجوہات کی بنا پر دولہا دلہن کو اپنے گھر لے جانے سے قاصر رہا وہاں بد قسمتی سے گراؤنڈ زیرو صحافیوں نے ان کا جینا حرام کر کے رکھ دیا۔ یہ خبر ملتے ہی سینکڑوں کی تعداد میں صحافی حضرات گراؤنڈ زیرو صورت حال کا جائزہ لینے پہنچ گئے۔
باپ سے بار بار یہ سوال دہرایا جا رہا تھا کہ ” بیٹی کی بربادی کو لے کر وہ کیسا محسوس کر رہا ہے” بیک وقت کم سے کم دس صحافی گھر کے افراد خانہ سے الگ الگ پوچھ گچھ کر رہے تھے۔ گویا ان کے گھر میں صحافیوں کی ایک سیلاب امڈ آئی تھی۔ یقیناً باراتیوں سے زیادہ خرچہ صحافیوں کے چائے پانی پر آیا ہوگا۔ ہر ایک ہاتھ میں مائیک اور ساتھ میں کیمرا مین لے کر اونتی پورہ کے دل خراش سانحہ کا تماشہ بنانے میں مصروف تھا۔
دراصل گراؤنڈ زیرو جرنلزم کا بنیادی مقصد زیادہ سے زیادہ views حاصل کرنا ہے تاکہ فیس بک یا یوٹیوب پر ان کی چینلوں کو تیزی سے فروغ ملے اور وہ کم مدت میں زیادہ سے زیادہ فالورز بڑھانے اور پیسے کمانے میں کامیاب ہو جائیں۔ گراؤنڈ زیرو صحافیوں کو کسی کے دکھ درد سے کوئی مطلب نہیں، وہ کسی لاچار باپ سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتے، کسی کا بیٹا کھو جانے سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔۔ان کو بس views کی فکر ستاتی رہتی ہے اور زیادہ سے زیادہ ویورز حاصل کرنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں۔
فیس بک اور یوٹیوب پر گراؤنڈ زیرو صحافیوں کی ہا ہا کار مچی ہوئی ہے۔ ہر طرف یہی الفاظ بار بار سننے کو ملتے ہیں۔۔۔” کمنٹ کرو، لائک کرو اور اس ویڈیو کو زیادہ سے زیادہ شیئر کرو”۔
بھلے وہ ویڈیو کسی کے جنازے کی ویڈیو ہی کیوں نہ ہو، کسی بے بس عورت کی فریاد ہی کیوں نہ ہو یا کسی کے گھر کے نجی مسائل ہی کیوں نہ ہو لیکن گراؤنڈ زیرو صحافی ان باتوں کی پرواہ کیے بغیر سماج کو اس دلدل میں دھنسا رہے ہیں جہاں سے پھر نجات حاصل کرنا کافی مشکل کام ہے۔ گراؤنڈ زیرو جنرلزم کی وجہ سے آج کل کے بیشتر لوگوں کا صحافت پر سے بھروسہ ہی اٹھ گیا ہے لیکن ابھی بھی ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو ان گراؤنڈ زیرو صحافیوں کو عروج دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے۔ ان کو فالو کر کے اور ان کے ویڈیوز کو آگ کی طرح پھیلانے میں ہم جیسے کئی لوگوں کا ہاتھ ہے۔یہاں کے گراؤنڈ زیرو جرنلزم کے عروج سے ہمارا سماج کافی منفی اثرات سے دوچار ہوتا جا رہا ہے جس کو روکنے کی سخت ضرورت ہے۔ اگر اس بے ہنگم آن لائن یا واہیات گراؤنڈ زیرو جرنلزم کے سلسلے کو روکا نہ گیا تو وہ وقت بھی بہت قریب ہے جب گھر گھر سے گراؤنڈ زیرو صورت حال کا معائنہ کرنے کے لیے ایک خود ساختہ صحافی کا جنم ہوگا اور وہ گلی کوچوں میں مائک لے کر، زار و قطار رو رو کر اور چلا کر یہی کہے گا کہ ” اس ویڈیو کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں، اگر نہیں کیا تو میں اپنی جان بھی دے سکتا ہوں۔۔۔۔۔”