373

مناظر عاشق ہرگانوی کے ناول پر ڈاکٹر محی الدین زور کشمیری کا کام

ابراہیم افسر، میرٹھ (یوپی)

نام کتاب:مناظر عاشق ہرگانوی کا ناول شبنمی لمس کے بعد:ایک ڈسکورس
مرتب:ڈاکٹر محی الدین زور کشمیری
سن اشاعت:2020
ضخامت:312صفحات
قیمت:250روپے
ناشر:ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، H.O.D1/16، انصاری روڈ، دریا گنج، نئی دہلی – 110002
تبصرہ نگار:ابراہیم افسر،وارڈ نمبر1-،مہپا چوراہا،نگر پنچایت سوال خاص ضلع میرٹھ (یوپی) 250501 ،موبائل9897012528

مرحوم پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کے ادبی کارنامے اتنے وقیع ہیں کہ اب تک ان کی 250سے زائد کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں اور ان کے فن اور شخصیت سے متعلق کئی درجن کتابیں تحریر ہو چکی ہیں۔مختلف دانش گاہوں میں ان پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے سپردِ قلم ہو چکے ہیں۔موصوف نے اب تک کوئی ناول نہیں لکھا تھا ،اس لیے اپنی اس دیرینہ خواہش کو ”شبنمی لمس کے بعد “تخلیق کر پورا کیا۔235صفحات پر مشتمل ناول”شبنمی لمس کے بعد“کی بنیاد پرفیسر مناظر عاشق ہرگانوی نے جنسی تلذذمیں سرشار 44خطوط پر رکھی ہے۔ان خطوط کو باقاعدہ علاحدہ علاحدہ عنوان سے رقم کیا گیا ہے۔ناول میں ایک شادی شدہ مرد کاشف کا دوشیزہ لڑکی فرحت سے عشق کے بعد نکاح کرنا ،نکاح کے دوسرے دن ہی کاشف کا راز فاش ہونا اور نکاحِ ثانی کے تیسرے روزکاشف کا سعودی عرب چلے جانا،یہ تمام واقعات ہیں جنھیںناقدن نے ناول کی اساس قرار دیا ہے۔ناول کی کہانی فلیش بیک میں چلتی ہے اور نتیجہ طلاق کی صورت میں سامنے آتا ہے۔مناظر عاشق ہرگانوی نے اس ناول میں کاشف کے کردار کو مکار، عیار، خود غرض اور جنسی آسودگی حاصل کرنے والے ایسے مرد کے طور پر پیش کیا ہے جو اپنی جنسی بھوک مٹانے کے لیے فرحت جیسی بھولی بھالی اور معصوم لڑکی کا استعمال کرتا ہے۔دیارِ غیر میں بیٹھ کر وہ فرحت کے جذبات کو جنسی لذت اندوزی سے سرشار خطوط کے ذریعے بے قابو کرتا ہے ۔ان خطوط میں کاشف اسے وہ سب کچھ لکھتا ہے جسے پڑھتے وقت کسی بھی انسان کے جذبات کا قابو میں رہنا مشکل ہے ۔
”شبنمی لمس کے بعد“مناظر عاشق ہرگانوی کا پہلا ناول ہے جو 2018میں منظرِ عام پر آیا۔مکتوباتی انداز میں لکھے گئے اس ناول کو پڑھنے کے بعد اُردو حلقوں میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوا۔اول یہ ناول خطوط پر مبنی ہے یعنی لیلا کے خطوط اور مجنوں کی ڈائری کے بعد یہ ایسا ناول ہے جس میں ایک مٹتی ہوئی صنف کو دوبارہ زندہ کیا گیا ہے ۔ناقدین نے اس ناول کے بارے میں اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے اسے اکیسویں صدی میں اُردو میں لکھا گیا کوک شاشتر، کام سوتر،جنسی انارکی اور عریانیت کا نمایندہ ناول کہا تو کسی نے مناظر عاشق ہرگانوی کو اُردو ادب کا فحش ناول نگار قرار دیا۔بعض ناقدین نے تو اس ناول کو نثری لذت اندوزی کے چٹخاروں کا شاہ کار ناول گردانا۔کسی نے اسے تکنیکی ناول،کسی نے مکتوباتی جنسی جمالیاتی ناول،کسی نے نے محبت کے انوکھے انداز کا ناول،کسی نے جادوئی انداز میں لپٹا ہوا ناول،کسی نے بدن کی جمالیات کا مرقع ، کسی نے حسن و وصل سے بھرا ہوا ناول اورکسی نے اپنے عہد کا ترجمان ناول اور کسی نے ماہرِجنسی طبیب کی کہانی اپنی زبانی بیان کرنے والا ناول اورکسی نے اسے زہر عشق کا نثری بیانہ کہا۔اس تنقیدی بحث میں وہ 44خطوط تھے جن میں جنسی ہوس ناکی و فحش نگاری کی تمام حدود کو عبور کیا گیا ہے۔بالخصوص بائیسواں اور تیسواں خط جن میں عورتوں کے مخصوص اعضا اور لذتِ وصل پر بے باکی کے ساتھ تشریحی اور تصریحی انداز اختیار کیا گیا ہے ۔کئی ناقدین نے اس ناول کے بارے میں اپنی نپی تلی آرا کا اظہار کیا۔بعض نے ان خطوط کو سامنے رکھ کر یہ نتیجہ بھی اخذ کیا کہ اگر ان خطوط کی زبان و بیان پر غور کیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ناول صرف جنسی جذبے کو بھڑکانے اور قارئین کے جسموں میں جنسی حرارت پیدا کرنے کے لیے ہی رقم کیا گیا ہے۔ناول میں انگریزی محاوروں اور مکالموں کو بھی استعمال کیا گیا ہے۔مشہور افسانہ نگارعبدالصمد نے پردیس میں بیٹھ کرلکھے گئے فرحت کے نام خطوط کو عورتوں کے جذبات کو گرم رکھنے کی کوشش قرار دیا ہے ۔اس ضمن وہ لکھتے ہیں:
”مرد اسے دیار غیر سے جو خطوط لکھتا ہے وہ اورل سیکس کی یاد دلاتا ہے۔وہ دور رہتے ہوئے بھی عورت کے جذبات کی بھٹی کو گرم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔اسے وہیں عجیب و غریب جنسی تعلیم فراہم کرتا ہے۔مختصر یہ کہ وہ معصوم لڑکی کے جذبات سے جی بھر کے کھیلتا ہے۔“(ص21)
مناظر عاشق ہرگانوی نے نرالے رنگ ڈھنگ اپنے ذاتی تجربے سے ان خطوط میں مخالف جنسی اداو¿ں، خوبیوں اور جنسی جذبے کو بھڑکانے کے لیے عورتوں کے اعضاے خاص کا بیان تصریحی زبان میں کیا ہے۔ناقدین کے مطابق ایسی زبان کوادب کی زبان قرار نہیں دیاجا سکتا۔ان کی نظر میںناول کا مطالعہ کرتے وقت قارئین کے اذہان اور اجسام میں جو ہلچل پیدا ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔بالخصوص عنفوانِ شباب میں قدم رکھنے والے نوجوانوں کے جنسی جذبات اس ناول کی قرا¿ت کے وقت قابو میں رہیں ،ایسا ممکن ہی نہیں۔ان سب باتوں کے با وصف مناظر عاشق ہرگانوی کے اس ناول کو اُتر پردیش اُردو اکادمی،لکھنو¿ نے2019میں 15000روپئے کے انعام سے نوازا۔
زیر نظر ناول ”شبنمی لمس کے بعد“پر جو تحریری گفتگواور مباحثے ادبی رسائل و جرائد میں ہوئے ان کو یک جا کر ڈاکٹر محی الدین زور کشمیری نے نئے تناظراور ڈسکورس کے ساتھ قارئین کے سامنے پیش کیا ۔وہ لکھتے ہیں کہ میں نے ناول ”شبنمی لمس کے بعد“اور اس پر جمع شدہ مواد پر اپنے انداز سے سوچا اور ناول کوپڑھ کر اپنا حق ایک مضمون کی صورت میں ادا کیا اور پھر ناول پر لکھے گئے مواد کو ایک عنوان دے کر اسے ایک لڑی میں پرو دیایعنی ”مناظر عاشق ہرگانوی کا ناول شبنمی لمس کے بعد:ایک ڈسکورس۔“موصوف نے اپنے پیش لفظ میں اس بات کا اعتراف کیا کہ پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی البتہ ان کی تحریروں اور ادبی کارناموں نے مجھے اس بات پر آمادہ کیا کہ ان کے منفرد ناول پرجو بحثیں ادبی انداز میں کی گئی ہیں انھیں یک جا کروں۔انھوں اپنے پیش لفظ میں لفظ’ ڈسکورس ‘کے لغوی اور اصطلاحی معنی پرتبادلہ¿ خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مابعد جدیدیت کے دورکے بعد اُردو میں مکالمہ کے بجائے اگر کلامیہ لکھا جائے تو بہتر ہوگا ۔انھوں نے اس ناول کی اہمیت و افادیت سے بحث کرتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ نفسیاتی ہیجانی کیفیت اور بدن کی جمالیات پر تحقیق کرنے والوں کے لیے ناول میںشامل 44 خطوط کسی نعمت سے کم نہیں ہیں۔ان خطوط میں ہندوستانی تہذیب،مسلکی مسائل اور سیاست پر بھی تبادلہ¿ خیال کیا گیا ہے۔
زیر تبصرہ کتاب میں جن ناقدین کے مضامین شامل ہیں ان میں عبدالصمد،محی الدین زور کشمیری، خالد حسین خاں،نذیر فتح پوری، عبدالواسع، شاہد احمد جمالی، ابوللیث جاوید، مشتاق احمد وانی، سیفی سرونجی، امام اعظم،عشرت بیتاب،مشتاق احمد، شارق عدیل،ایم نصر اللہ نصر،سلمان عبدالصمد، صفی الرحمن راعین، احسان عالم، ارمان شمسی،ابرار احمد اجراوی،معین الدین شاہین، معراج احمد معراج، ایم صلاح الدین ، محمد نوشاد عالم آزاد،ترنم، عارف حسن وسطوی،رفعت عالیہ،استوتی اگروال، سیدہ تفسیر فاطمہ،ایم زیڈ خاں اور حیدر وارثی کے اسما سر فہرست ہیں۔منظوم فکر و فرزانگی میں عبدالمنان طرزی،محمد احمد کریمی ،احسان عالم، منظر سلیمان، ابرار احمد اجراوی،سید احمد ایثار اور امریندر کے نام شامل کتاب ہیں۔ اس کتاب کے منظرِِ عام پر آنے سے مناظر عاشق ہرگانوی کے ناول ”شبنمی لمس کے بعد“کو سمجھنے میں قارئین کو آسانی پیدا ہوئی ہے۔محی الدین زور کشمیری نے مناظر عاشق ہرگانوی کے اُس خط کو بھی کتاب میں شامل کیا جسے راجستھان کی ایک محترمہ نےناول پڑھ کر مناظر عاشق ہرگانوی کو لکھا تھا ۔کتاب میں شامل کچھ مضامین میں اس بات پر خفگی کا اظہار کیا گیا کہ کاشف نے جتنے خط لکھے ان کے جواب میں فرحت نے کوئی خط کیوں نہیں لکھا؟اپنے وکیل کے ذریعے بھیجے گئے نوٹس میں صرف تین سطریں فرحت نے رقم کی ہیں۔بہر کیف فرحت کا کردار ایک خود کفیل لڑکی کا ہے جواپنے اخراجات اور ضروریات اسکول کی نوکری کرتے ہوئے پورے کرتی ہے۔بہر حال یہ بڑی بات ہے کہ اس ناول کا انگریزی ،ہندی،میتھلی،عربی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔اس موقع میں ڈاکٹر محی الدین زو کشمیری کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے ان تمام امور کو یک جا کرنے کی کامیاب کوشش کی جن کی وجہ سے ناول کے بیانیہ کو سمجھنے میں آسانی ہوئی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں