ڈاکٹر محی الدین زورؔکشمیری
ایسی چلی ہے سرد ہوا تیرے شہر میں
غیرت کا خون گرم نہ تھا تیرے شہر میں
(روشن لال روشن)
یہ2008-09 کی بات ہے کہ میں لہہ لداخ کی ’مُرسے ‘کالونی میں ڈیرے پر رہتا تھا۔ وہاں میرے کچھ شاگرد بھی رہتے تھے، جن کا تعلق علاقہ ’بُغدان‘ نوبرا سے تھا اور وہ شیعہ مسلمانوں کے ایک فرقے نور بخشی سے نسبت رکھتے تھے۔ وہ اکثر میرے پاس بیٹھا کرتے تھے اور لداخ کے بارے میں اچھی خاصی جانکاری دیتے تھے۔ جیسے یہ لوگ ابھی پولی انٹری (یعنی ایک عورت سے سبھی بھائیوں کی شادی ہوتی تھی) کرتے ہیں۔ میت کو جلانے سے پہلے بہت مارتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس کالونی میں دو کشمیری عورتیں بھی رہتی تھیں، جنہوں نے لداخی بودھوں سے شادی کرلی تھی۔ وہ لوگ یہاں آرمی کی ڈیوٹی کررہے تھے کہ اس بیچ میں لوچکر میں وہ ان لڑکیوں کو یہاں سے بھگاکر لے گئے تھے۔ ان عورتوں کو میرے بارے میں پتہ تھا کہ میں کشمیری ہوں، مگر حد یہ ہے کہ وہ میرا منہ بھی دیکھنا نہیں چاہتی تھیں اور میرے سامنے اپنے بچوں کے ساتھ زور زور سے لداخی زبان میں پات چیت کرتی تھیں۔ ویسے لداخ میں یہ ایک کلچر بھی تھا کہ وہاں بودھ لڑکیا ں مسلمانوں سے شادی کر لیتی تھیں، پھر وہ اپنے شوہر کو ضرور بودھ ہی بنالیتی تھیں۔ آگے ان کی بیٹی بھی اپنی ماں کے مشن پر قائم رہتی تھی، جیسے کہ میں کالج میں ایسی کئی طالبات کا حال خود دیکھ رہا تھا۔ ایک بار میں نے ایک لداخی لڑکی کی شکل و صورت کشمیریوں جیسی دیکھی، تو میں اسے پوچھ گچھ کرنے لگا، تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ”میرے والد کشمیری مسلم تھے، سونہ مرگ علاقے کے رہنے والے اور انہوں نے میری ماں سے شادی کرکے بودھ مذہب اختیار کر لیا تھا۔ پھر کرگل وار میں مارے گئے“۔ اب تم لوگ کبھی کشمیر جاتے ہو۔ ”کبھی نہیں ہمیں ان سے کیا لینا دینا ۔! وہ تو محمڈن ہیں“!
ایسی بہت ساری بین مذہبی شادی کی مثالیں ہمیں لداخ میں دیکھنے کو ملی۔ اتنا ہی نہیں ، سنا ہے کہ ایک بار فاروق عبداللہ بحیثیت سی ایم وہاں گئے اور لداخی بودھوں نے ان سے پہلی شکایت یہی کرلی کہ یہ مسلمان لوگ ہماری بیٹیوں کو بھگاکے لے جاتے ہیں، تو فاروق عبداللہ نے مذاق میں فلم ”مغلِ اعظم“ کا گانا ”پیار کیا تو ڈرنا کیا۔۔۔“ گایا اور مسئلے کو ٹال کر انہیں کہا کہ آپ لوگ یہاں دیسی شراب یعنی چھنگ زیادہ بناو¿ اس کی اچھی خاصی مارکیٹ رہے گی۔ مسئلے کو ٹالنے یا لیڈر کی مسخری سے بات نہیں بنتی ہے، بلکہ ایک بم ضرور تیار ہوتا ہے اور وہی بم پھر وہاں کے مسلمانوں پر 1989ءکے فسادات کی صورت میں گر پڑا اور اس نے کئی علاقوں میں مسلمانوں کا وہاں صفایا کیا اور منّا جیسے جانباز مسلمان کی لاش کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں چلا!
اب آیئے اپنے گریباں میں پھر سے جھانکئے۔ 2014ءفروری کی بات ہے کہ راقم اور ڈاکٹر الطاف انجم لکھنو یونیورسٹی کے گیسٹ ہاوس میں ٹھہرے ہوئے تھے، تو وہاں دارالعلوم ندوہ کے ایک کشمیری استاد نے ہمارے بارے میں سنا اور وہ ہم سے ملنے کے لئے آگئے۔تو مختلف موضوعات پر گفتگو شروع ہوگئی۔ اس بیچ میں ان کے منہ سے ایک دلدوز بات یہ بھی نکل گئی کہ وہ لوگ چند روز قبل تبلیغ کے لئے ایک جگہ جار ہے تھے کہ ان کا گذر کچھ جھگی جھونپڑیوں سے ہوا۔ اس بیچ میں کشمیری زبان میں آواز آئی: کشمیری بھائیوں مجھے بچالو!
ہم نے دیکھا کہ ایک کشمیری لڑکی کو برگد کے پیڑ کے ساتھ باندھ دیا گیا تھا بگری گائے کی طرح ، ہم اس لڑکی کے نزدیک گئے او ر پوچھا کہ تم یہاں کیسے؟ لڑکی نے کیا بیان کیا: یہ شخص وہاں پھیری لگاتا تھا (جڑے ہوئے پرانے بال خریدتا تھا) اس نے مجھے ورغلایا اور کہا میرے پاس کیا کیا ہے۔ مگر یہاں وہ جھونپڑی میں رہتا ہے۔ گرمی اُف خدایا۔۔۔ اور مرے ہوئے جانور کھاتے ہیں۔ سور کھاتے ہیں ، گوبر، پیشات، شراب نہ جانے کیا کیا پیتے ہیں۔۔۔مجھے کسی طرح اپنے گھر کشمیر لے چلو۔۔۔ اس استاد نے انہیں سخت لہجے میں کہا، تو اسی جہنم میں مرو، تمہارے لئے یہ بھی کم ہے۔۔۔
تو ہم لکھنو میں اپنے قیام کی بات کر رہے ہیں۔ ان ہی دنوں مظفر نگر یوپی میں ہندو مسلم دھنگے ہوئے تھے۔ اس مسئلے پر وہاں جب ہم نے اپنے دو ہندو ساتھیوں (جو کہ بہت ہی کشادہ دل و دماغ رکھتے تھے) اور ایک مسلم ساتھی (جو کہ قانون پڑھاتے تھے) سے بات کی ، تو یہاں بھی گہرائی میں جاکر اس بات کا پتہ چلا کہ بنیادی مسئلہ بین مذہبی شادی کا ہے۔ اس کے ساتھ ہی جب ہم نے ایک بار میانمار میں مسلمانوں پر ہورہی بربریت کے بارے میں تحقیق کی، تو یہاں بھی بنیادی طور پر یہی مسئلہ تھا۔
خیر کچھ عرصہ پہلے کشمیر میں کچھ سکھ لڑکیوں نے مسلمانوں سے شادی کرلی، تو اس پر چند تخریب کاروں نے یہاں ایسا مسئلہ کھڑا کرنا چاہا کہ جس سے لاکھوں افراد کی جانیں جا سکتی تھی اور ایک بار پھر ہمیں تباہی کے مناظر دیکھنے کو مل جاتے، لیکن خدا کی مرضی ایسی نہیں تھی اور کشمیریوں (بشمول مسلمانوں اور سکھوں) نے نہایت ہی بردباری کا مظاہرہ کیا جوکہ اپنی مثال آپ ہے۔اس بیچ گودی میڈیا نے اس آگ کو بڑھکانے کے لئے ایک بار پھر ”لوجہاد“ کا نعرہ بلند کیا، جسے مسلمانوں میں بھی غصہ پیدا ہونا ایک لازمی بات ہے کیونکہ جو اصطلاح ہمارے مذہب میں ہے ہی نہیں، تو اس کو ہم اپنے ماتھے پر چسپاں کرنے کیوں دیں گے؟ جہاں تک کہ میں سمجھا اسلام میں ”جہاد“ ایک وسیع اصطلاح ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک سابق وائس چانسلر اور فلم اسٹار نصیرالدین شاہ کے برادر ضمیر الدین شاہ میری طرح بے ریش آدمی ہے، اس لئے ان کی بات کو مان کر ہم کہیں گے کہ جہاد کے معنی جدوجہد زندگی کے ہیں، چاہے آپ عالمی انسانیت کو بچانے کے لئے کرونا ویکسین نکالنے کی جدوجہد کریں یا پھر اپنے عیال کو اچھی طرح کھلانے پلانے اور اپنے بچوں کی تربیت کے لئے پتھروں کو کاٹ کو اپنی مزدوری کا پیسہ لے لیں۔ اسی طرح کوئی تنظانیہ کے قبائل لوگوں کے پاس جاکر انہیں دین کی دعوت دیں۔۔۔ تو یہ سب جہاد میں شامل ہے۔
اب جہاں تک کہ پیار محبت کی بات ہے، وہ تو لیلیٰ مجنوں، ہیر رانجھا۔۔۔ وغیرہ کے قصے ہیں جو کبھی دل بہلانے کے لئے پڑھے اور سنے جاتے تھے۔ آج کے دور میں ان کی کچھ زیادہ معنویت نہیں ہے۔! دو جنسوں کے درمیان کا معاملہ بابا آدمؑ سے چلا آیا ہے اور ہر دو رمیں اس رشتے نے مختلف روپ بدل لئے ہیں لیکن ہرمہذب سوسائٹی کے پاس (چاہے اس سوسائٹی میں کس مذہب کے لوگ رہتے ہوں گے) اس کا اپنا اپنا ایک فارمیٹ ہوتا ہے۔ جو اس فارمیٹ سے باہر نکلتا ہے، اس کو کسی نہ کسی صورت میں طرح طرح کے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دیکھا جائے تو اسلام میں کسی دوسرے مذہب میں (خاص کر اہل کتاب کے ساتھ) شادی کرنا جائز ہے لیکن اس کے لئے کچھ شرائط بھی لازمی ہیں۔ تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات ہوئے، جہاں مختلف قبیلوں میں پیغمبروںاور ان کے پیروکاروں یا پھر بادشاہوں کو شادی کر لینی پڑی۔ ان تمام باتوں کا اپنا اپنا پس منظر ہے۔
اب جہاں تک کہ ہماری موجودہ سوسائٹی یا پھر بادشاہوں کا تعلق ہے، یہاں نہ ان چیزوں کی کوئی معنویت ہے اور نہ ایک عام انسان کی زندگی کے لئے یہ موزوں رہتا ہے۔ آج بھی بڑے بڑے لوگ یا فلمی ستارے بین مذہبی شادیاں کرتے ہیں۔ وہ ان کا کلچر ہے، جس کے ساتھ ایک عام انسان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس سوسائٹی میں جو ہورہا ہے، اس سے دھنگے یا فساد نہیں ہوتے ہیں البتہ اگر عام لوگ ایسا کچھ کریں گے تو وہ فساد کا باعث بنتا ہے۔ اس پر بڑے بڑے لوگ سیاست کا کھیل کھیلتے ہیں اور پھر خون خرابہ کیا جاتا ہے۔ سید شہنواز حسین، تنویر عباس نقوی، عامر خان، شاہ رخ خان، منوج بھاجپائی، شیلا دکشت کی بیٹی، ریتک روشن، یہاں تک کہ عمر عبداللہ جیسے لوگ کیا کریں گے۔ عام لوگوں کو ان کے زاویہ نگاہ سے کبھی نہیں سوچنا چاہئے ، ان کا مذہب دولت، گلیمر اور اقتدار ہے!ویسے بھی میں نے ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی پرابلم یہ بھی دیکھی کہ اکثر ان کی عورتوں کا کوئی ایکسپوژر ہی نہیں ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی مسلمان کسی اچھے سرکاری پوسٹ پر منتخب ہوتا ہے یا کسی اور فیلڈ میں ترقی پاتا ہے تو پھر اس کو اپنے برابر لڑکی ملنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ وہاں کہیں کہیں اُلٹا یہ لڑکیوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ کسی لڑکی نے آئی اے ایس کیا یا پھر کسی یونیورسٹی میں وہ سلیکٹ ہوئی یا کسی فورس میں آفسر ہوئی، تو وہ لڑکی ثنا خان کی طرح مولوی انس کے ساتھ نکاح کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتی ہے۔
اس کے برعکس کشمیر میں ایسی کوئی پرابلم نہیں ہے۔ یہاں دونوں جنس برابر ترقی کرتے ہیں۔ اس لئے یہاں ہر طبقے کی لڑکی لڑکے کا میچ ہونا بڑا آسان ہے۔ اس بات کے پیش نظر بین مذہبی شادی کا یہاں کوئی بھی جواز نہیں بنتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے بچے اگر ایسی کوئی غلطی کریں گے، تو وہ نہ صرف ان کی اپنی غلطی ہوگی، بلکہ اس کی سزا پوری قوم کو بھگتنی پڑے گی۔ وہ اس طرح چونکہ عورتوں کی آبادی مردوں سے کچھ فیصد زیادہ ہے۔ اب اگر ہم نے دوسرے مذہبوں کی لڑکیوں سے شادی کرلی یا خود کو بڑا سمجھنے کے لئے فارین بیوی کو لے آئے، تو یہاں کی عورتوں کو نکاح کے معاملے میں مردوں کی اور زیادہ کمی پڑجائے گی۔ یہ بھی ایک وجہ بن سکتی ہے، تو ہماری بیٹی غیر مسلم کے ساتھ شادی کرے گی۔ اس کے علاوہ بدلے کی آگ بھی بھڑک سکتی ہے۔ تو پھر یہ کون سا لوجہاد ہے اور بھلا اس سے اسلام کو کیا فائدہ ملا، بلکہ ُالٹا نقصان ہی ہوا۔ ہمارے پاس ایسی کئی مثالیں ہیں، جہاں یہاں کی لڑکیوں نے غیر مسلموں سے شادی کرلی۔
دو تین گھرانوں کو چھوڑ کر یہاں سبھی لوگ تقریباً برابر ہیں اور ہمارا کلچر کچھ اچھا اور کچھ بُرا بھی ہے۔ سماجی رسم و رواج بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے یہاں فلیٹ سسٹم، کالونی سسٹم، ہائی فائی۔۔۔ وغیرہ نہیں ہے، بلکہ تقریباً ہم ایک ہی سوچ کے مالک ہیں۔ تو ان حالات میں بین مذہبی شادی تو دور کی بات ہے، بین علاقائی، بین مسلکی شادی کرنے میں لاکھ طرح کی دقتیں آجاتی ہیں۔ اس لئے اگر ہمیں کشمیری بن کر ہی جینا ہے تو ہر کسی کے ساتھ اچھی طرح کھاو¿ پیو مگر شادی اپنے ہی قبیلے میں اچھی ہے اور لوجہاد کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔