286

کشمیر میں عارضی اور غیر مستقل سرکاری ملازم آخر قربانی کے بکرے کیوں سمجھے جاتے ہیں

ڈاکٹر محی الدین زور کشمیری

It is very difficult for the prosperous to be humble (Jane Austen, Emma)

جس زمین کی مٹی جتنی زرخیز ہوگی، ٹھیک اسی قدر اس سے فصل بھی اُگ سکتی ہے۔ اتنا ہی نہیں وہاں کے رہنے والے لوگ بھی اسی قدر ملن سار اور خوبصورت ہوتے ہیں۔ اب جہاں زمین بنجر ہو تو وہاں کانٹے ہی ہوں گے اور وہاں کے لوگ بھی سوکھے دل والے ہوں گے۔
یہ 1999 ءکی بات ہے کہ میں گورنمنٹ ہائر اسکنڈری اسکول کھاگ بڈگام کشمیر (جو کہ ایک سخت کنڈی علاقہ کہلاتا ہے)میں کنٹریکچول لیکچرار کے طور پر کام کرتا تھا اور تنخواہ تھی صرف ساٹھے تین ہزار روپے، و ہ بھی ماہانہ نہیں ملتے تھے بلکہ کئی مہنوں کی تاخیر کے بعد۔ وہاں تعینات دیگر اساتذہ کے تعنے اور پرنسپل صاحبہ کی بدسلوکی۔۔۔ یہ الگ دل دُکھانے والی داستاں ہے میری!
خیر 15 اگست کے موقع پر آرمی کی طرف سے سبھی مقامی تعلیمی اداروں کو یہ حکم نامہ ملا کہ آپ لوگوں کو یوم جشن آزادی میں حصہ لینا ہوگا۔ تو پرنسپل صاحبہ نے اپنے اسٹاف کی میٹنگ بلاکر حکم جاری کیا کہ مذکورہ پروگرام میں، میں ( یعنی کنٹریکچول)، ماسٹر جھنڈا سنگھ (کیونکہ وہ اقلیتی طبقے سے تعلق رکھتا تھا) اور ایک مقامی روزانہ اُجرت پر کام کرنے والا فراش، شرکت کریں گے اور خود یہ تمام لوگ 15 اگست کے دن غائب ہوگئے۔ اس وقت کشمیر کے مقامی جنگجوو¿ںمیں کچھ حد تک کمی آئی تھی، لیکن دوسری طرف وادی میں کئی بدیشی ملیٹنٹ سرگرمِ عمل تھے۔ اب وہ لوگ سیدھے فورسز کیمپوں میں گھس کر تابڑ توڑ حملے کرتے تھے۔ اس بات کے پیش نظر مجھے سخت تشویش لاحق ہوئی کہ کل کا دن کیسے گذر جائے گا اور پروگرام بھی کیسے ہو جائے گا۔ میں اکیلے بیٹھا اس شش و پنج میں مبتلا تھا کہ اب کیا کیا جائے۔ جنگلی علاقہ ہے، آرمی کیمپ میں پروگرام کرنا ہے، اگر خدا نخواستہ کچھ گڑ بڑ ہوگئی تو ہمارا کیا حال ہوگا!۔
میں نے اسکول کے فراش کھانڈے کو کہا بھائی آپ میرے ساتھ آجاو¿ ، ہم پہلے کیمپ آفیسر سے ملتے ہیں، تو اس طرح ہم 14 اگست کی شام کیمپ میں جاکر ان سے ملے اور 15 اگست والے پروگرام کے بارے میں بات کرلی۔
مجھے لگا کہ وہ آفیسر مجھ سے زیادہ تشویش میں ہے اور ہمیں انہوں نے بتایا کہ’ یہاں سیکورٹی کا بہت زیادہ اندیشہ رہتا ہے، ادھر بھروسہ بھی نہیں ہے کہ کب کیا کچھ ہوگا۔‘ وہ بھی اس پروگرام کو فارملٹی کے طور پر کرنا چاہتا ہے۔اس کی پوری بات سُن کر میں نے انہیں مشورہ دیا کہ ہم کیمپ کے اندر نہیں، بلکہ باہر ’ہائر اسکنڈری اسکول کےاگراونڈ میں اس پروگرام کو منعقد کریں۔ آپ گاو¿ں کی کمیٹی کو ہدایت دیں، وہ سارا انتظام خود کرلیں گے اور آپ مخصوص وقت پر کچھ منٹوں کے لئے آئیں گے، جھنڈا وغیرہ لہراکر واپس چلیں جائیں، اس طرح فارملٹی بھی پوری ہو جائے گی اور خطرے کا بھی اندیشہ نہیں رہے گا۔
تو اس طرح اگلے روز ویسا ہی ہوا، مگر اب پروگرام کو کنڈکٹ کرنے کے معاملے میں یہ تضاد پیدا ہوا کہ وہاں کے لوکل اسکولوں کے اساتذہ نے مجھے سارے پروگرام کی نظامت کرنے کے لئے دھمکایا جو کہ میں نے نہیں مانا، البتہ میں نے صرف اپنے ہائر اسکنڈری اسکول کے پروگرام کی نظانت کرلی۔ اگلے دن باقی اساتذہ، لیکچرارس اور پرنسپل صاحبہ اس پروگرام کے بارے میں خوب ہنسی مذاق کرنے لگے، جوکہ مجھ پر گولے کی طرح برس رہے تھے!۔
دوستو! یہ صرف کشمیر میں میرا ذاتی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اس اسٹوری کے related یہاں کی ہزاروں بلکہ لاکھوں کہانیاں ایسی ہیں، جہاں غریبوں، لاچاروں، بے کسوں اور دوسری طرف عارضی سرکاری ملازمین کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔ شکر خدا کا ہے کہ مجھے اس وقت صرف (یا اس کے بعد بھی میرے ساتھ ایسے بہت سارے واقعات پیش آئے) کچھ ذہنی تکلیف ہوئی، لیکن ان بے چاروں کا کیا کیا جائے جو ایسے موقعوں پر اپنی جان بھی کھو بیٹھتے ہیں یا انہیں طرح طرح سے جسمانی تکالیف دی جاتی ہیں۔
سب سے پیچیدہ مسئلہ ہے، کشمیر میں محکمہ بجلی کے ملازمین کا۔ ہم آئے روز یہ خبر سنتے ہیں کہ فلاں جگہ بجلی محکمے کا ایک ملازم کرنٹ لگنے سے جھلس گیا یا خمبے سے گر کرمر گیا۔۔۔ ان مرنے والے ملازمین میں اکثر و بیشتر عارضی ملازمین ہی ہوتے ہیں، جن کے پیچھے ایک عیال کثیر ہوتا ہے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ اگر سرکار کسی شخص کو کسی محکمے میں بطور عارضی ملازم بھرتی کرتا ہے تو مخصوص مدت کے بعد اس کو مستقل کیوں نہیں کیا جاتا ہے؟ بجلی محکمہ ٹیکنکل ہے، تو وہاں تربیت یافتہ لوگوں کو ہی بھرتی کیا جائے یا پھر کام پر رکھنے سے پہلے ان کی تربیت کا بندو بست کیا جائے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ خمبے پر چڑنا یا ترسیلی لائنوں کی مرمت کرنا مستقل ملازمین کی ذمہ داری ہے نہ کہ ان عارضی ملازمین کی۔ تیسری بات یہ ہے کہ جب کسی جگہ لائن، پول، ٹرانسفارمر وغیرہ کی مرمت کا کام ہوتا ہے، تو اس بیچ گرڈ اسٹیشن سے بجلی کون چالو کرتا ہے کیا اس محکمے کا سسٹم اتنا کمزور ہے کہ ملازمین ایک دوسرے سے کام کے دوران تال میل نہیں رکھ پاتے ہیں اور ان کی آپسی من مانی سے کسی کی جان چلی جاتی ہے؟
اب آپ محکمہ صحب عامہ کی طرف توجہ دیجئے۔ کل ہی ان کا ایک ویڈیو ہم نے دیکھا کہ جس میں وہ ایک سیکورٹی گارڈ سے پوسٹ ماٹم کرواتے ہیں۔ ایک طرف لاش کا اور دوسری طرف پیشے کا ایک تقدس ہوتا ہے، یہاں اس بات کو کیوں مدِ نظر نہیں رکھا جاتا ہے۔
اتنا ہی نہیں آج کووڈ کی ہم بات کرتے ہیں، اس دور میں سارا کام ہم آنگن واڈی ورکروں یا اسپتال کے دیگر لوگوں جیسے صفائی والے، ملٹی پرپز ورکر اور زیادہ سے زیادہ میڈیکل اسسٹنٹ کو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ڈاکٹروں کا حال یہ ہے کہ کسی بڑے سے بڑے اسپتال میں آپ جائیں وہاں زیادہ سے زیادہ آپ کو PG اسٹوڈنٹ ملے گا۔ بڑے ڈاکٹر کو وہاں کورونا ہوجاتا ہے اور اپنے ذاتی کلینک میں وہ مریض کو دیکھنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ اب جو ڈاکٹرس نام و نہاد ہیں انہیں پتہ ہے کہ ہمارے پاس مریض کسی بھی صورت میں آئیں گے، تو وہ بھی وہاں پردے میں رہ کر ہی بات کرتے ہیں، ان کے آگے پورا ٹرانسپیرنٹ غلاف رہتا ہے تاکہ کورونا کا کیڑا انہیں نہ کاٹے، البتہ پیسے کا بھوت ان پر ہمیشہ منڈلاتا رہتا ہے!۔
محکمہ پولیس میں تو اب سارا سرکاری غیر سرکاری، ذاتی، قانونی وغیرہ کام SPO’s سے ہی کروایا جاتاہے۔ حد یہ ہے کہ اب ایک پولیس افسر کے گھر کا، ان کے رشتہ داروں یاروں دوستوں وغیرہ کا سارا کام ان ہی معصوم لوگوں سے لیا جاتا ہے۔ جن میں بہت سارے SPO’s اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں!۔
یہ میں نے یہاں ان محکموں کا نام لیا ہے کہ جہاں ایک غیر مستقل ملازم کو کبھی سرکاری ڈیوٹی کے دوران اپنی جان بھی قربان کر دینی پڑتی ہے۔ ان کے علاوہ بھی بہت سارے سرکاری محکموں میں عارضی طور پر کام کر رہے ملازم ہیں جو اپنی تنگدستی کی وجہ سے کبھی سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور کبھی خود کشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں!۔
ایک طبقہ ایسا بھی ہے کہ جنہیں وقتی طور پر contract پر لگاکر ان کے بڑے بڑے نام دئے جاتے ہیں جیسے لیچرارس، پروفیسرس اور ڈاکٹرس، پھر ان کی مستقل نوکری کے لئے خدا ہی حافظ۔ ادھر وہ اپنی ڈگریوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ کسی اور کام کے لئے معزور بھی بنے ہوئے ہوتے ہیں!۔
کچھ ٹیکنکل لوگوں کو بھی عارضی contract یا پھر کسی سکیم کے تحت بھرتی کیا جاتا ہے، جس کی مستقلی کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ عام طور پر مختلف سرکاری محکموں میں ڈیلی ویجر، کیجول، عارضی ملازموں کی باڑ ہے، جن میں بہت سارے لوگوں سے اچھا خاصا کام لیا جاتا ہے اور کچھ گھر بیٹھے بیٹھے صرف کاغذوں پر ہی درج ہیں۔ ان سارے لوگوں کی زندگی میں آدھی روٹی، کم عمری میں صحت کی خرابی، اُداس اور دفتروں میں مستقل ملازموں یا افسروں کے ہاتھوں ان کی بے عزتی لکھی ہوئی ہے، مگر ان کے اہل عیال کا کیا حال ہے؟ کیا کبھی ہم نے اس بات پر غور کیا ہے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں