سہیل سالم
ناول ”مٹی کے صنم“ میں کرشن چندر پونچھ کے بارے مےں لکھتے ہیں:
”پونچھ کے دن میرے لئے بہتے پانی کے دن تھے اور سورج مکھی کے پھولوں کی طرح آفتاب کے گرد طواف کرنے کے دن تھے۔۔۔میں ایک زمین۔۔ ایک دھرتی۔۔۔ ایک شہر۔۔۔ ایک سیارہ تھا۔۔۔۔ جو مسرت کے گرد چکر لگاتا تھا۔میرے وہ دن کھلے نیلے آسمانوں میں سفید بادلوں کی طرح گزر گئے۔ وہ گھڑیاں آج بھی یاد کے کسی اونچے بھورے ٹیلے پر لمحوں کی لمبی لمبی ڈنڈیاں پر نرگسی پھولوں کی طرح جھکی ہوئے مجھے تکتی ہیں۔“
پونچھ کے انھیں کوہساروں، مرغزاروں، آبشاروں، لالہ زاروں اور برف زاروں کی خوبصورتی کو اعجاز اسد نے انپے شعری مجموعہ”برف زار“ میں بڑی فنکارانہ مہارت سے ادبی دنیامیں معتارف کروایا کیونکہ شاعر کا تعلق بھی پو نچھ سے ہیں۔”برف زار“ اعجاز اسدکا اولین شعری مجموعہ ہے۔جس میں انھوں نے اپنے فہم و ادراک کی تپش سے برف زاروں میں حرارت پیدا کر نے کی کامیاب سعی کی ہے تاکہ برف زاروں میں رہنے والے چرند و پرند اور حیاتات و نباتات کی رگوں میں پھر سے زندگی کا جو ش پنپ سکے۔ اعجاز اسد کی شاعری کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے کئی باتوں کا شدّت سے احساس ہوا۔ایک یہ کہ شاعر برف زاروں کی جمالےاتی تصویرکو منظر عام پر لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔دوسری بات یہ کہ اعجاز اپنی شاعری میں اخلاقیات کے اسرار و رموز پر لب کشائی کرتے ہوئے اخلاقیات کا درس اپنے مخصوص لب و لہجے میں دینے کا ہنر بھی رکھتے ہیں۔وہ شہری زندگی کے اسراف ،لسانی قدروں کی خستہ حالی اور اپنے تہذیب و ثقافت کی پامالی جیسے موضوعات سے اپنے کلام کو سنوارتے ہیں ،جس سے ان کی شاعری میں ایک نیا رنگ وآہنگ پیدا ہوتا ہے۔ ان کے کلام کی خصوصیات کو مدد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ اعجاز نے اپنے آس پاس کے ماحول میں بدلتے ہوئے رجحانات کا غو ر سے مطالعہ کیا اوراسی کا اثر قبول کرتے ہوئے اپنی شاعر ی کا مزاج و مہاج اور اسلوب بدلا۔ اعجاز معاصرشعرا کی طرح غم اور خوشی، درد وکرب، ہجر ووصال اور امید و نا امیدی کا ماتم نہیں کرتے ہیں بلکہ زندگی کے جنگ میں جیت جانے کا سلیقہ سکھاتے ہیں جو کہ ایک قابل قدر بات ہے۔ اعجاز اسد لکھتے ہیں
سہل کو مشکل بنانا چاہئے
پھر کوئی کرتب دکھانا چاہئے
ان کو بھی جینے کا حق دیدے کوئی
بس انہیں اک وقت کھانا چاہئے
مفلسوں میں ہی ملے شاید
مہر و الفت کا خزانہ چاہئے
اعجاز اسد اپنے ماحول پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں اور اپنے ہی ماحول سے موضوعات کا مواد حاصل کرتے ہوئے ایک فطری شاعر ہونے کا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں۔ فطری شاعر ہونے کے ناطے وہ اپنی کلام میں انہیں فطری عناصر کو منصہ شہود پر لانے کی کوشش کرتا ہیں جو ان کے شعری کےنوس پر غزل کی شکل وصورت میں نمودر ہوتے ہیں۔جب ایک فرد غم روز گار کے ساتھ ساتھ غم عشق میں مبتلا ہو تو اس کی صورت حال کیا ہوسکتی ہے۔ اس درد و کرب کا اندازہ ان اشعار سے لگایا جاسکتا ہے
جو حالت مری ہے تمہاری ہے کیا
تمہیں بھی بہت بے قراری ہے کیا
نکھر آئی ہے تیرے چہرے کی رنگت
نظر آنسوﺅں سے اتاری ہے کیا
وفا کے معنی بدلنے لگے
کسے علم ہے جاں نثاری ہے کیا
اس میں کوئی شک نہیں کہ برف زاروں کے حسن میں لوگوں کے دکھ اور درد کا مداوا پنہاں تھا لیکن کئی عرصے سے برف زاروں کے ساتھ اپنوں اور غیروں نے جو تلخ رویہ اختیار کر رکھا ہے اس رویے نے بروف زاروں کے روح کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ اعجار اسد نے اس المناک صورت حال کو اور اپنے برف زاروں کی حفاظت کی خاطر بہت سے اشعارمیں اپنے احساسات کا اظہار کیا ہے
چار سو انتشار ہے یا ہے؟
خزاں ہے بہار ہے کیا ہے؟
سب کو مشکوک تم سمجھتے ہو
خو د پہ بھی اعتبار ہے کیا ہے؟
سوا نیزے پہ چاہئے سورج
جسم میں برف زار ہے کیا ہے؟
کوئی آہٹ تلک نہیں ہوتی
میرے اندر مزار ہے کیا ہے؟
رشتوں کا کرب اور ہجرت پر بھی اس دور کے شعراءنے خاص توجہ دی ہے۔ انسان کی انسانیت سے دوری یہاں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اسی دوری نے انسان کے وجودمیں ہمدردی، اخوت اور محبت کو تار تار کیا۔ پھر چاہے ایک گاﺅں سے دوسرے شہر ہجرت کرنے کا مسئلہ ہو یا اپنے وطن کو چھوڑ کر دوسرے ملک میں زندگی بسر کرنے کا خواب ہو، ایسے میں قدروں کا جنازہ کس طرح نکلتا ہے۔ اعجاز اسد کے یہ شعر ملاحظہ فرمائیں
کسی گھر کا بہت نقصان ہوتا ہے
تو دولتمند کاسامان ہوتا ہے
اگر اندرون دل ایمان ہوتا ہے
تو پھر جینا بڑا آسان ہوتا ہے
اسد آجا کہ ہم کو چین آجائے
یہ گھر تیرے بنا سنسان ہوتا ہے
اعجاز اسد کے شعری مجموعہ ”برف زار“کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ شاعر اپنے مخصوص اظہار سے شعری کائنات کی تخلیق کررہا ہے اور شعری دنیا کا سفر بھی کر رہا ہے۔وہ اپنے تخلیقی قوت سے خو د اپنی پہچان بناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔خوابوں اور خیالوں کی سرحدیں توڑ کر حقیقت کی تلاش میں مصروف نظر آتے ہیں۔اعجاز اسد نے اپنی تہذیب و ثقافت کو بھی اپنے کلام میں ایک انفرادی رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ بیرونی معاملات سے لے کرہمارے معاصر سماجی، سیاسی، اقتصادی، مذہبی اورتعلیمی حالات کا عکس ان کے کلام میں دیکھنے کو ملے گا۔اس زاویے سے دیکھیں تو ”برف زار“ میں شامل غزلیات میں نئے دور کی تر جمانی بھی ہے۔ ان کے موضوعات میں شگفتگی،رنگارنگی اور تنوع بھی ہے جس کے سب ان کی شعری کائنات کا کینوس بہت گہرا ہے۔بقول اعجازاسد
وہ کہ اہل وفا نہ تھا مجھ کو اس سے گلہ بھی نہ تھا
تھا کس کے خیالوں میں گم وہ مگر لاپتہ بھی نہ تھا
خوان ہمسائے کو دے دیا جس کا چولہا جلا بھی نہ تھا
برف رازوں کا غزل خواں اعجاز اسددور حاضر کے ایسے شاعر ہیں جو نئی نسل کے مابین تضاد اور کشمکش کو بخوبی محسوس کرتے ہیں۔ان کی شاعری نا آسودو رندگی اورانسان کی ذاتی الجھنوں کا المیہ پیش کرتی ہے اور ساتھ ہی زندگی کے غم اور تہذیبی پسماندگی کی سچی تصویر بھی ظاہر کرتی ہے۔”برف زار“ میں جو زبان استعمال کی گئی ہے بہت سادہ ہے۔ انسان کے دکھ درد کی، اس کے مسائل کی عکاسی بھی اس مجموعے سے ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے تخلیقی موتیوں سے اردو غزل کے دامن کو مزید زینت بخشی ہے نیز ان کا شعری اثاثہ ہماری رہنمائی کرتا ہیں اور کرتا رہیں گا۔