ڈاکٹر محی الدین زور کشمیری
ناقص تحقیق و تنقید کی وجہ سے اُردو ڈراما برسوں تک نہ صرف گھپ اندھیرے میں رہا، بلکہ اس صنف کے بارے میں بہت ساری غلط فہمیاں بھی پیدا ہوئی ہیں۔ جسکی وجہ سے اس صنف کواردو ادب میں وہ مقام نہیں ملا، جواس کا پیدائشی حق تھا۔ ہم نے محمد عمرنور الٰہی ، مسعود حسن رضوی ادیب اور عشرت رحمانی کی جمع کردہ باتوں کو ہی حرفِ آخرمان کر انہیں پھر نصاب میں شامل کرکے رٹ لگا کر اپنے طلبہ تک پہنچا کر انہیں اندھیرے میںر کھا۔ یہاں تک کہ ان کے بعد جن لوگوں نے بھی ڈرامے پر ریسرچ کی، انہوں نے زیادہ تر مذکورہ بالااشخاص کا چربہ اُتار کر اپنی بات اُردو ڈراما کی کم مائیگی کے نعرے پرسمیٹ لے لی۔
اب اکیسویں صدی میں جہاں ہم اُردو کے دیگر اصنافِ ادب پر مختلف زاویوں سے کام کررہے ہیں، وہاں صنفِ ڈارمے پر بھی قابل قدر کام ہونے لگا، خاصکر انیس اعظمی، زبیر رضوی، افروز تاج، ڈاکٹر محمد کاظم،ڈاکٹر اظہر عالم اور راقم الحروف، کے کام سے کم از کم یہ بات واضح تو ہوجاتی ہے کہ اُردو ڈراما کسی دوسری صنف سے کچھ کم نہیں ہے۔!
ڈراما کے ساتھ دوسری اہم چیز ہے۔ مآس میڈیا سے متعلق writing ، حالانکہ صنف ڈراما اپنی الگ صنفی اور ادبی پہچان کے ساتھ ساتھ خود بھی اس میں شامل ہے۔ اس لئے ڈراما ہو (تھیڑ، ٹی وی، اسٹیج ، ریڈیو یا فلم) یا مآس میڈیا سے متعلق دیگر تحریں۔ اس کیلئے اب اُردو میں باضابطہ طور پر الگ الگ بڑا حلقہ تیار ہوا ہے اور وہ بھی قابلِ داد کام کر رہا ہے، اس ضمن میں میں یہاں چند اہم نام پہلے پیش کرتا ہوں۔
نادر علی خان، انجم عثمانی، ضیا الرحمن صدیقی ، سید اقبال قادری،غلام حیدر، بلجیت سنگھ مطیر، انور علی دہلوی، مہدی حسن، پریم پال اشک، کمال احمد صدیقی، زبیر شاداب، شاہد حسین، خواجہ اکرام، فرحت رضوی وغیرہ۔ محمد خالد عابدی کا شمار میں ان ہی مصنفین کے ساتھ کرتا ہوں، کیونکہ وہ خود ڈرامے لکھتے ہیں اور ریڈیو سے تعلق ہونے کے ناطے انہوں نے میڈیا سے متعلق مختلف نئے نئے شعبہ¿ جات میں نمایاں کام کیا ہے ۔یوں تو محمد خالد عابدی کی تصنیف و تالیف کتابوں کی تعداد انکے مہیا کردہ لسٹ کے مطابق ایک درجن سے زیادہ ہے اور اتنی تعداد انکی غیر مطبوعہ کتابوں کی بھی ہے۔ انہوں نے ڈرامے، افسانے، طنز مزاح اور مختلف موضوعات پر مضامین لکھے۔ ریڈیو اور فلم پر بھی لکھا اور کچھ علاقائی ادب پر بھی کام کیا۔
چونکہ میں انکی شخصیت سے ذاتی طور پر مانوس نہیں ہوں۔ اور نہ میرے پاس انکی ساری کتابیں موجود ہیں، اسلئے میں انکی شخصیت یا انکے ادبی کارناموں پر مجموعی طور پر بات کرنے سے گریز کرکے صرف ان کی کتابوں پیکر آواز (ڈراما مجموعہ) ریڈیو انٹرویوز، اور فلمی انٹرویوز کے حوالے سے ہی بات کرنے کی سعی کروں گا۔ ساتھ ہی یہ بھی عرض ہے کہ ۱۸۹۱ءمیں مدھیہ پردیش اُردو اکادیمی نے ”مدھیہ پردیش میں اُردو ادب کے پچیس سال“ کے عنوان سے ایک ضخیم (۴۸۹ صفحات) انتھالوجی شائع کیا۔ جس میں خالدی عابدی کا ایک ریڈیائی ڈراما ”دوسرا جنم“ بھی شامل کیا گیاہے ۔ جوکہ انکی پہلی تصنیف ”آوازِ نما“ (۵۷۹۱ءریڈیائی ڈراموں کا مجموعہ) سے اخذ کیا گیا ہے۔ یہ ایک مزاحیہ سماجی ڈراما ہے۔ ایک ادیب بھی کسی سماج کا ایک انگ ہوتا ہے۔ اس ڈرامے میں ادب کی بے قدری اور ادیبوں کی گھریلو زندگی کے مسائل کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مذکورہ ڈرامے میں صرف چار ہی کردار ہیں۔ ادیب یعنی مرزا اسکی بیگم ، اسکا دوست وحشت اور بیگم کی سہیلی شاداب ۔اس ڈرامے کے شروع میں میاں بیوی کی تو تو میں میں اور انکے دوست وحشت کی چاپلوسی دکھائی گئی ہے۔ ڈرامے میں کشمکش کی لہر اس وقت تیز ہو جاتی ہے۔ جب دعوت کھانے کے بعد مرزا اپنے کتب خانے میں اپنی کتابیں غائب دیکھ پاتا ہے، تو اسطرح اس کی حالت غیر ہوجاتی ہے، لیکن جب بعد میں بیگم اسے کہتی ہے کہ وہ کتابیں میں نے دھوپ دینے کیلئے اُوپر چاندنی پررکھدی ہیں، تو اس سے مرزا کی جان میں نئی جان آجاتی ہے۔
یہاں فاضل مصنف نے ادیب کی زندگی کے دونوں پہلو اُجاگر کئے ہیں۔ ایک سائڈ سے وہ مطالعے اور کتابوں سے کافی دل لگاتے ہیں، جسکی موجودہ دور میں کوئی قدر نہیں ہوتی ہے، تو دوسری طرف وہ اپنی گھر گرہستی میں بڑی بے اعتنائی برتتا ہے ۔ان حالات میں اسکے گھر میں روز کوئی نہ کوئی جھگڑا تو جنم لیتا ہی ہے۔
یہ ایک مختصر سا ڈراما ہے اور یہاں کرداروں کی بھر مار بھی نہیں ہے، لیکن ہر کردار کی اپنی اپنی اہمیت و افادیت ہے۔ جیسے مرزا ، بیگم اور وحشت کے علاوہ شاداب کا کردار بھی بڑا جاندار ہے، کیونکہ مرزا کو سبق سکھلانے کا پلان وہی بیگم کو سمجھاتی ہے اور اسی پلان سے یا انکی ہی باتوں سے اس ڈرامے کے ذریعے اہم مسئلوں کی طرف ہماری توجہ مبزول کی گئی ہے۔ وحشت کے ذریعہ مصنف نے اور زیادہ تصادم پیدا کیا۔ اس ڈرامے کے مکالموں میں کہیں کہیں عامیانہ پن ہے، البتہ تکنیکی طور پر اس ڈرامے میں کوئی پیچیدگی نہیں رکھی گئی ہے۔ اسے بہ آسانی ریڈیو کے ساتھ اسٹیج پر بھی پیش کیا جاسکتا ہے۔
”آواز نما“ محمد خالد عابدی کے ڈراموں کا ایک مجموعہ ہے۔ جو انہوں نے ۵۷۹۱ءمیں مکتبہ شرقیہ ابرایہ نپورہ بھوپال سے شائع کروایا۔ اس کتاب پر شاعر ۶۷۹۱ءمیں ابراہیم یوسف نے تبصرہ کیا اور ڈاکٹر ہارون ایوب(مصنف ناشر ۴۹۹۱ئ) نے بھی اپنی کتاب دفتر جنوں میں ایک تاثراتی مضمون لکھا۔ جسکے حوالے سے راقم بھی یہاں کچھ تعارف اس کتاب کا پیش کرے گا۔ خالد عابدی کے یہ ڈرامے قاری کو مطالعہ کے دوران بھی پورا لطف دیتے ہیں حالانکہ یہ سبھی ڈرامے ریڈیو کیلئے لکھے گئے اور مختلف ریڈیو اسٹیشنوں سے نشر بھی ہوئے۔ اسکے باوجود بھی یہاں اسٹیج کی کیفیت اور منظر کھل کر ہمارے سامنے آجاتا ہے، کیونکہ ان ڈراموں میں اسٹیج ڈراموں کی بھی ساری خصوصیات ہمیں ملتی ہیں۔
”آواز نما“کے سبھی ڈراموں میں تعمیری پلاٹ موجود ہے، جس سے مصنف کا شعور فن ڈراما میں ترقی کرتا ہواہمیں محسوس ہوتا ہے۔ موضوعات ہلکے پھلکے ہیں، لیکن مکالمے برجستہ اور ظرافت کی ہلکی چاشنی لیے ہوئے ہیں۔ جو قاری کو برابر اپنی طرف متوجہ کئے رہتے ہیں۔ کردار جاندار ہیں اور یہ سبھی سماج کے جیتے جاگتے افراد معلوم ہوتے ہیں۔ زبان اور انداز بیان موضوع اور کرداروں کا ہمیشہ برابر ساتھ دیتا ہے۔ ماحول کی عکاسی اور واقعات کے اظہار میں مصنف کا قلم اپنے شباب پر نظر آتا ہے۔
غرضیکہ یہ ڈرامے فنی تراش خراش کے ساتھ خالد عابدی کے فن کے ارتقا اور انکے ایک اچھے ڈراما نگار ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔پیکر آواز، خالد عابدی کے آٹھ مزاحیہ ڈراموں کا ایک مجموعہ ہے، جو اپریل ۳۸۹۱ءمیں منظر عام پر آگیا۔ اس مجموعے میں شامل پہلے چھ ڈرامے ریڈیو کیلئے اور آخری دو ڈرامے اسٹیج کیلئے لکھے گئے۔ عابدی صاحب کے ریڈیو ڈراموں میں ہماری گھریلو زندگی کو موضوع بنا کر میاں بیوی کی نوک جھونک کو بڑے مزاحیہ انداز میں پیش کیا گیاہے اور آخری دو ڈراموں میں اپنے دور کے بدلتے ہوئے حالات اور انسان کی بے باکی، ضمیر فروشی کو چند مشہور تاریخی اور ادبی کرداروں کے ذریعے نمایاں کرنے کی کوشش کی۔ متذکرہ بالا مجموعے میں شامل پہلا ڈراما ”باز آئے ایسے پڑوسی سے “ کے عنوان سے ہے ۔ جس میں شری واستو (یعنی پتاجی) کے بچوں راکیش اور سریندر کو امتحان ہوتا ہے، مگر انکے پڑوسی ملہوترہ کے ریڈیو اونچا رکھنے سے انکی پڑھائی میں خلل پڑ جاتا ہے۔ تو پہلی دفعہ جب پتاجی ملہوترہ کو سمجھاتے ہیں کہ انکے بچوں کا چونکہ امتحان ہے، اسلئے آپ ریڈیو کی آواز کو ذرا کم کیجئے۔ ملہوترہ ان کی اس بات سے اتفاق تو کرتے ہیں، مگر اپنی ضد کو وہ نہیں چھوڑ دیتے۔ تب پتا جی اپنے دوست شرما ریڈیو لائسنس چکینگ آفسر کو اپنے ساتھ لے جاتا ہے اور وہ ملہوترہ کو لائسنسن کے بارے میں پوچھتا ہے مگر وہ ان کی بات کو ٹالنے کیلئے خود بہرہ ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں، اسطرح وہ لوگ ایسے پڑوسی سے تنگ آجاتے ہیں۔ اس ڈارمے میں ہمارے ایک اہم سماجی مسئلے کی طرف ہماری توجہ مبزول کرائی گئی ہے۔
یہ ایک مختصر سا ریڈیو ناٹک ہے، جس میں اونچا ریڈیو سننے کے مسئلے (خاصکر تعلیم کے معاملے میں اسکے مضر اثرات )کے علاوہ دیگر گھریلو مسائل بھی بڑے مزاحیہ انداز میں بیان کئے گئے ہیں اور اسی میں اس ڈرامے کا تصادم بھی ہے۔ مصنف نے یہاں غیر ضروری طور پر ہندی الفاظ اور جملے استعمال کئے ہیں۔
دوسرا ڈراما ”خاندانی شاعر“ بھی ایک مزاحیہ ڈراما ہے، جس میں ادب چوری اور سرقہ کاری کو موضوع بنایا گیا ہے۔ زخمی اپنے آپ کو ایک بڑا اور خاندانی شاعر جتلاتا ہے اور اس شاعری سے وہ اچھا خاصا معاوضہ بھی لیتا ہے، مگر اس کی یہ پول اس وقت کھل جاتی ہے، جب خنجر آکر اُن سے کہتے ہیں کہ میرے دادا نے اپنی ڈائری پر یہ بات درج کی تھی کہ زخمی میرا قلمی دیوان پڑھنے کیلئے لے گیا تھا۔ اتنے میں زخمی کا بیٹا جاوید وہ قلمی نسخہ لے کر آتا ہے اور پھر خنجر اور زخمی آپس میں لڑتے ہیں۔ نسخہ خنجر کے ہاتھ میں آجاتا ہے۔ بیگم زخمی پر طنز کے تیر برساتی ہے:
”بیگم: (قہقہہ لگاتی ہیں) اُٹھیے اُٹھیے بہت ڈینگیں مارتے تھے۔ میں تو خاندانی شاعر ہوں۔ چھ پشتوں سے میرے خاندان میں شاعری چلتی آرہی ہے۔ آج دیکھ لیا مشاعرہ (مسلسل ہنستی ہیں)“ ص ع۵۳
اس ڈرامے کا بیشتر حصہ میاں بیوی کی نوک جھونک میں گذرتا ہے۔ مگر خنجر کے آتے ہی اس میں بیرونی تصادم ہونے لگتا ہے۔ ڈرامے کا نقطہ¿ عروج جاوید کے اس مکالمے میں بڑے ڈرامائی کنا یے کے ساتھ پیش کیا گیاہے۔
”جاوید: اگر یہی کتاب ہے ،تو ان کے مُنہ پر مار دیجئے۔ کتنا اوچھا شخص ہے۔ پھٹی پُرانی اور دیمک لگی ہوئی کتاب پر لڑ رہا ہے۔“ص۴۳
جاوید کو خود اس بات کا پتہ نہیں ہوتا ہے کہ اس سارے فتنے کی جڑ یہی ایک کتاب ہے اور یہ کیا قدرو قیمت رکھتی ہے۔!
(جاری)