ڈاکٹر محی الدین زور کشمیری
Put a rogue in the lime light and he will act like an honest man (Napoleon Bonaparte)
میری بات چیت بٹہ مالو سرینگر میں چند نیم ہول سیل دکانداروں سے ہوئی اور دوران گفتگو انہوں نے مجھے بتایا کہ ہمارے پاس کبھی کوئی ایسا شخص آجاتا ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ میری فلاں جگہ فلاں قصبے میں ایک دکان ہے اور اس کے لئے میں آپ سے ہی تھوک میں مال خریدنا چاہتا ہوں۔ خاص کر چائے ، اس لئے مجھے چائے کے کچھ نمونے چاہئے۔ تو اس طرح وہ شخص پورے مارکیٹ کے دس بیس دکانداروں سے چائے کے نمونے حاصل کر لیتا ہے اور پھر دو تین مہینوں کے لئے اس چائے سے ان کے کچن کا انتظام ہو ہی جاتا ہے۔!
دوستو! آج میں بات کرنا چاہتا ہوں کہ لوگ مفت میں مال کیسے لیتے ہیں۔ ایک تو ہوا چوری کرنا یعنی چھپ چھپ کر رات کے اندھیرے میں یا کسی غافل شخص کا مال لوٹنا یا کسی کے ہاں طاقت کے بل بوطے پر ڈاکہ ڈالنا یا لوٹ مار کرنا۔ وہ موضوع یا تو مسئلہ الگ ہے۔ میں یہاں ٹھگوں کی بات کر رہا ہوں۔ بہت پہلے ہمارے انگریزی نصاب میں ایک کہانی A Clever Rogue بھی تھی شاید یہی وجہ ہے کہ جب ہم نے اپنے تعلیمی اداروں میں ٹھگی کی تعلیم دے دی پھر یہی وجہ ہے کہ آج ہر سماج میں ٹھگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ سماج پر ہی کیوں موقوف ہر کہیں ٹھگی ہوتی ہے۔ کچھ ٹھگ بڑے بے شرم ہوتے ہیں اور کچھ مہذب بھی۔ جس طرح کچھ بھکاری انگریزی زبان میں بھیک مانگتے ہیں اور کچھ بھیک کا باضابطہ رسید بھی دے دیتے ہیں۔ یہ کم یا زیادہ یا کم ظالم زیادہ ظالم کشمیری سیاست میں بھی ایک سیاسی ٹھگ نے ایک اصطلاح قائم کرکے لوگوں کو خوب ٹھگ لیا۔ امریکی میڈیا نے بھی ایک اصطلاح گُڈ طالبان اور بیڈ طالبان مروج کر ڈالی لیکن برسوں تک کافی جانی و مالی نقصان کرکے جب اُن کے ہوش ٹھکانے آگئے تو افغانستان جیسے روکھے سوکھے خاردار ملک میں بھی امن قائم ہوا۔ اس لئے ہماری بھی یہی دعا ہے کہ ہر فرد کے دل کو سکوں ملے۔ اچھا ہم اصل بات کر رہے تھے کہ کبھی کبھار ٹھگ لوگ بھی اپنا دھندا ایمانداری سے نہیں بلکہ کم از کم ہم کہیں گے مہذبانہ طریقے سے چلاتے ہیں۔
ہم کشمیر میں زیادہ تر سرکاری نوکری لگانے والے ٹھگوں کو جانتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ بات بتانا ضروری ہے کہ اگر سرکاری نظام اچھا ہو تو ٹھگی کا بازار ٹھنڈا پڑجائے گا۔ اگر ہم اچھا کھانا کھائیں گے، جسمانی ورزش کریں گے اور اپنے دل و دماغ میں فتور جمع نہ کریں گے تو بیماری ہمارے پاس بھی نہیں پھٹکے گی۔ اگر پولیس چوکس رہے گی اور بڑی ایمانداری سے مجرم کو سزا دلوائے گی تو چوروں کا نام و نشان ہی مٹ جائے گا۔ اسی طرح ایک دور کشمیر میں ہم نے ایسا بھی دیکھا جب سرکاری ملازمت کی لسٹ کسی سربراہ کے گاؤ خانے میں تیار کی جاتی تھی۔ پھر نوکریاں بند۔ وہ وقت بھی آیا جب اُمیدوار فارم جمع کرتے تھے لیکن منتخب لسٹ کا برسوں تک کچھ اتہ پتہ نہیں لگتا تھا۔ پھر کہیں معلوم ہوتا تھا کہ اس نوٹیفیکیشن کے تحت ایسے لوگ کام کرتے ہیں کہ جنہوں نے فارم بھی نہیں جمع کئے تھے۔ اس کے بعد آج تک کیا کیا موڑ آگئے وہ کسی الف لیلہٰ داستان سے کم نہیں ہے، مگر ہمارے یہاں کے ٹھگوں نے ہمیشہ بخوبی اپنا رول نبھایا۔ ان کی ایمانداری اور ان کا مہذبانہ رویہ دیکھئے۔ جن اُمیدواروں نے کسی نوٹس کے تحت فارم بھرے ہیں اور وہ اس کے پراسس میں بھی شریک ہوئے۔ ان کی ایک لسٹ وہ لوگ بناتے ہیں۔ پھر اپنی پہنچ کے مطابق ان مختلف اُمیدواروں سے خوب مال لے لیتے ہیں۔ جو مال دینے والوں میں خود بخود منتخب ہو گئے، انہیں مبارک باد اور ان کا روپیہ حلال ہو گیا اور جو منتخب نہ ہو سکے ان کا روپیہ انہیں بڑی دیانت داری سے ایک دو روپئے کے اضافے کے ساتھ واپس کیا گیا۔ نوکری لگانے والے ٹھگوں میں ایک جماعت یہ فارمولہ بھی اپناتی تھی کہ ان کی پہنچ اتنی ہوتی تھی کہ لسٹ آوٹ ہونے سے کچھ دن پہلے ہی انہیں منتخبہ امیدواروں کا کچھ اتہ پتہ چلتا تھا اور وہ لوگ ان کے پاس جاکر یوں منتر پڑھتے تھے، آپ نے جس نوکری کے لئے فارم وغیرہ بھرا ہے، اس کی لسٹ آج تیار ہو رہی ہے۔ بتا تجھے اس میں نام رکھوانا ہے کہ نہیں؟ مجھے کل تک بتا دیجئے، اگر رکھوانا ہے تو اس کے لئے اتنا مال نقدی کی صورت میں لگے گا۔ نہیں تو میں کسی اور کو۔۔۔۔۔ صرف کل تک کا وقت ہے۔ تو اس طرح وہ مہا ٹھگ اپنے شکار کو جال میں بڑی آسانی سے پھنسا لیتا ہے۔! نوکری ٹھگوں کی ایک جماعت ایسی بھی ہے جو کسی محکمے کے اعلا عہدوں پر فائز ہوتے ہیں، وہ اپنے چیلے چمچوں سے معصوم، نابکار، جلد باز، کم ایمان والے۔۔۔۔ لوگوں کو پھانس کر ان سے دوتین لاکھ روپیہ لے لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھائی چھ مہینے تک آپ کو دفتر میں عارضی طور پر نوکری کر لینی پڑے گی اور آپ کی تنخواہ بھی کم رہے گی اور پھر تم ضرور مستقل کروائے جاؤ گے۔ اسے یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ نہ تو ہمارا دیا ہوا یہ آرڈر کسی کو دکھایئے گا اور نہ اس نوکری کے بارے میں کسی کو بتایئے گا۔ تو جناب ہمارے معصوم گھر میں خیرات بانٹتے ہیں۔ اچھے ملازموں والا لباس پہنتا ہے اور ڈیوٹی پر جاتا ہے۔ چھ مہینے یا سال تک تھوڑی تھوڑی تنخواہ بھی انہیں مل جاتی ہے۔ دراصل ان کی یہ تنخواہ اس کے دیئے ہوئے رقم کا کچھ حصہ ہوتا ہے۔ تو کچھ مہینوں یا سال کے بعد اُسے کہا جاتا ہے کہ بھائی ہم نے تمہاری نوکری کو پکا کرانے کی بہت کوشش کی، مگر بڑے صاحب اچانک تبدیل ہو گئے۔ نیا صاحب فائل پہ دستخط ہی نہیں کرتا ہے یا منسٹر صاحب کو دوسرا محکمہ دے دیا گیا۔ یا ہمیں کیا پتہ ہے کہ حکومت بدل جائے گی اور اس کے رولز بھی بدل جائیں گے۔ اس بیچ میں ملازموں کا تبادلہ ہو جاتا ہے تو اس طرح میرے معصوم کو لات مار کر دفتر سے باہر نکالا جاتا ہے۔ اگر لڑکی ہو تو ۔۔۔۔ اور طرح کے خطرات۔ اب یہ شخص مجھ جیسے محلے کے ماسٹر جی کو اپنی نوکری کی آرڈر کاپی دکھاتا ہے جوکہ صدفیصد جعلی ہوتا ہے اور اپنی روئیداد سنانے بیٹھتا ہے۔۔۔۔۔!
یہ ٹھگ لوگ صرف نوکریاں ہی نہیں بانٹتے ہیں بلکہ زندگی کے قدم قدم پر ان کا سامنا ہمیں کرنا پڑتا ہے جن کی تفصیل کے لئے وقت اور صفحہ قرطاس چاہئے۔!
ہوائی جہازکے کیبن کریو کی جھوٹی ہنسی، ہوٹل والے، دکاندار کا سلام کلام یا یس سر وغیرہ یہ سب ٹھگی کے اصول ہیں۔ باقی ان لوگوں کو آپ سے نہ کوئی ہمدردی ہوتی ہے اور نہ وہ دل سے آپ کی عزت کرتےہیں۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ آپ ایک دکاندار یا کسی اور کاروباری کو ان سے لیا ہوا کوئی معمولی سامان واپس کردو یا انہیں صرف اتنا ہی کہہ دو کہ یہ چیز فلاں جگہ آپ کی ریٹ سے سستا ملتا ہے۔ پھر دیکھنا ان کا روباریوں کا بگڑنا اور ان کی زبان کا استعمال۔!
اسی طرح ڈاکٹر جیسے لوگ بھی آج معمولی لوگوں سے دوستی بڑھاکر انہیں اپنا ایجنٹ بنا دیتے ہیں تاکہ انہیں اپنے گاہکوں کو ٹھگنے میں خوب موقع آئے۔ آج چونکہ ڈیجیٹل ورلڈ ہے اور سائبر کرائم ٹھگی کا سب سے بڑا اور جدید طریقہ ہے۔ آپ کا اکاونٹ لوٹا جاتا ہے اور بات بات پر آپ کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔۔۔ ہم نے سنا تھا کہ Ladies First اور اب یہ سیاسی نعرہ بن گیا ہے کہ ہر کام میں مہیلاؤں کو مرد کے برابر حصہ لے لینا چاہئے جس سے ٹھک کے ساتھ ٹھگنی بھی پیدا ہوگئی اور مختلف ٹھگی کارناموں کے ساتھ ساتھ ایک ٹھگنی تیس شوہروںکو ٹھگ گئی اور دوسری ٹھگنی نے دو شوہروں کو ہی نہیں بلکہ دو ملکوں کی سراغ رساں ایجنسیوں کو ٹھگ لیا۔!