149

زیارت  حضرت ستہ ریشی ؒ اکنگام انت ناگ۔۔۔

فاضل شفیع بٹ

اکنگام انت ناگ

وادی کشمیر کو” پیرہ وآری”  بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی وادی کشمیر کو اولیاء اللہ کا گھر تصور کیا جاتا ہے۔ ورودِ اسلام کے ساتھ ہی  یہاں علم و ادب،  درس و تدریس اور  روحانی قدروں کے فروغ کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا۔ حضرت عبدالرحمن المعروف بلبل شاہؒ  دوسری مرتبہ رینچن کے دور حکومت میں ایک مختصر جماعت کے ہمراہ کشمیر تشریف لائے۔ رینچن کا آبائی مذہب بدھ مت تھا۔  حضرت بلبل شاہؒ نے  رینچن  کو دعوت اسلام دے کر انہیں مشرف بہ اسلام کیا اور انہیں صدر الدین کے نام سے نوازا۔ اس طرح وادی کشمیر میں پہلی دفعہ دین اسلام کی شروعات ہوئی اور اسلام کو فروغ دینے کے لیے بہت سارے علماۓ کرام اور صوفی بزرگوں نے اپنی اپنی زندگیاں صرف کر دیں اور لوگوں کو دین اسلام کی تعلیمات سے روشناس کیا اور اللہ کے فضل و کرم سے اس مشن میں کامیابی سے ہمکنار بھی ہوئے۔

 ان ہی  علمائے دین میں ایک نام حضرت بابا اسماعیلؒ کا ہے۔  حضرت بابا اسماعیلؒ  ملتان سے ہجرت کر کے یہاں وادی کشمیر میں تشریف آور ہوئے تھے۔واردِ کشمیر ہونے کے بعد وہ ضلع اننت ناگ کے اچھہ بل علاقے کے ایک گاؤں اکنگام  میں سکونت پذیر ہوئے۔  ان کی بیوی کا نام حضرت بی بی آمنہؒ تھا جو  ایک نیک اور دیندار خاتون تھیں۔ حضرت  بابا اسماعیلؒ  نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ اکنگام کے گردو نواح میں  درس و تدریس کا عمل شروع کیا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت بابا اسماعیلؒ  کی سات اولادیں ہوئیں، جن میں چھ لڑکے اور ایک لڑکی شامل تھی۔ ان کی یہ سات اولادیں ستہ ریشی (سات ریشی)  کے نام سے مشہور ہوئے۔

 ضلع انت ناگ سے  تقریباً بارہ  میل کی دوری پر واقع ایک نہایت خوبصورت گاؤں اکنگام ہے ۔اکنگام اور بدورہ  کے درمیان حضرت بابا اسماعیلؒ  اور ان کی اہلیہ حضرت بی بی آمنہؒ بر لبِ سڑک مدفون ہیں  اور ان کی زیارت گاہ کی تعمیرِ نو کو حال ہی میں عمل میں لایا گیا۔

 کہا جاتا ہے کہ ان کی اولادوں نے دنیاوی عیش و آرام کو چھوڑ کر  اور یہاں کے لوگوں سے کنارہ کشی کر کےاکنگام کے  گھنے جنگلوں میں سکونت اختیار کر لی اور اللہ کی عبادت میں دن رات محو ہو گئے۔ جس  مخصوص جگہ وہ عبادت کرتے تھے اس جگہ کا نام” مجدہ کَن ” ہے۔

 اس زیارت میں حضرت بابا اسماعیلؒ  کے دو اولاد مدفون ہیں۔  جن کے نام  حضرت گوہر ریشیؒ  جو کہ ان کا بیٹا ہے اور حضرت کوثر ریشیؒ جو ان کی بیٹی کا نام ہے۔ یہاں کے باشان میں عام ہے کہ اس جگہ پر سات اولیاۓ کرام یعنی حضرت بابا اسماعیلؒ  کی سات اولاد مدفون ہیں۔مگر سرسری تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت درست نہیں اور یہاں پر بس دو ہی اولادان مدفون ہیں۔

 تاریخ میں حضرت بابا اسماعیلؒ  کے اولادوں کے نام یوں بیان کیے گئے ہیں:

 حضرت گوہر ریشیؒ،  حضرت ہفتہ ریشیؒ،  حضرت ادریس ریشیؒ،  حضرت بوریس ریشیؒ،  حضرت قاسم ریشیؒ،  حضرت گونشی ریشیؒ  اور حضرت کوثر ریشیؒ۔  کہا جاتا ہے کہ حضرت بوریس ریشیؒ  اور حضرت ادریس ریشیؒ اکنگام  میں مدفون ہیں۔  حضرت قاسم ریشیؒ  اور حضرت ہفتہ ریشیؒ کانڈی وارہ  کے جنگلوں میں مدفون ہیں جو کہ اسی ستہ ریشی صاحب کے پہاڑی علاقے میں واقع ہے ۔ حضرت گونشی ریشیؒ صوف شالی کوکرناگ میں مدفون ہیں اور وہ  علاقہ بھی اسی پہاڑی سلسلے کا ایک حصہ ہے۔

 یہ بھی ایک پرانی روایت ہےکہ ستہ ریشی سے منسلک اولیاۓ  کرام نے  کبھی بھی گوشت نہیں کھایا تھا۔ یہاں تک کہ یہ حضرات تازہ سبزیوں کا استعمال کرنا بھی مناسب نہ سمجھتے تھے اور سوکھے پتوں اور ساگ پر گزارا کیا کرتے تھے۔  مختلف ریشہ ناموں اور کشمیر کے اکناف و اطراف میں سینکڑوں ریشی بزرگوں کے متعلق یہ روایات ہیں کہ وہ ترکِ لذات کرتے تھے۔ اور گوشت وغیرہ سے پرہیز فرماتے تھے۔  ان کے احترام میں اکنگام کی اس زیارت گاہ میں بھی گوشت، مچھلی  اور انڈے نہ لے جانے کی روایات صدیوں سے چلی آرہی ہیں۔ 

 زیارت گاہ  کے پاس ایک ٹھنڈے پانی کا چشمہ بھی ہے جو ایک منفرد پہچان کی حیثیت رکھتا ہے۔ کہا جاتا ہےکہ ان  اولیاۓ کرام  کی دعاؤں کے اثر سے وہ چشمہ پھوٹا تھا۔ اور تب سے ہزاروں لوگ اس کے پانی سے سیراب ہوتے ہیں۔یہ بھی ایک روایت ہےکہ زیارت گاہ کے پاس گوشت کے استعمال سے چشمے کا پانی سوکھ جاتا ہے۔

  زیارت گاہ میں لنگر خانہ کے ساتھ ساتھ ایک پرانی مسجد بھی موجود ہے۔ لنگر خانہ  اور مسجد کی تعمیر کا کام پاس ہی گاؤں بدورہ  میں رہنے والے ریشیوں کے سر جاتا ہے۔  بدورہ میں مقیم  ریشی خاندان نے ابتدا سے ہی اس زیارت  کی نگرانی کا کام اپنے ذمہ لیا ہے اور آج بھی یہ سلسلہ بدستور موجود ہے۔

 زیارت کی نگرانی پر معمور غلام رسول ریشی صاحب  کا کہنا ہے کہ یہ اولیاۓ کرام ” مجدہ کَن”  کی ایک مخصوص جگہ پر عبادت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ بقول ان کے تقریباً چودہ  صدی عیسوی کی بات ہے  جب کشمیر میں مسلم حکومت کا دور دورہ تھا۔ غلام رسول کے مطابق ایک دفع وقت کے بادشاہ  (  بادشاہ کا نام بتانے سے وہ قاصر رہے)  کافی بیمار پڑے اور کسی شخص نے بادشاہ کے سامنے ستہ ریشی کا نام لیا اور بادشاہ سے  ان کے پاس جانے کی تجویز پیش کی۔ چنانچہ بادشاہ ان حضرات سے ملاقی  ہوئے  اور ان سے ملاقات کے بعد ان کی طبیعت میں کافی حد تک سدھار آیا۔ غلام رسول کا مزید کہنا تھاکہ اکنگام   کے پہاڑی علاقے میں” مالئہ ون”  نامی  گاؤں کے لوگ ستہ ریشی( سات ریشی)  کو بہت تنگ کیا کرتے تھے اور وہ چشمے کا پانی گندا کیا کرتے تھے جو کہ ستہ ریشی  کی عبادات میں خلل کا ایک سبب بن جاتا تھا۔مالئہ ون  کے لوگ  چوری اور ڈاکہ زنی کے کاموں میں ملوث تھے اور انہوں نے یہاں کے لوگوں کا جینا حرام کر کے رکھا تھا۔

 بادشاہ کی طبیعت سازگار ہوتے ہی وہ پھر سے ستہ ریشی سے ملاقی ہوئے۔ اس ملاقات میں ستہ ریشی نے مالئہ ون کے  لوگوں کی وجہ سے درپیش مشکلات کی شکایت بادشاہ سے کر دی  اور بادشاہ نے اسی وقت مالئہ ون  کا پورا گاؤں ختم کرنے کا حکم جاری کیا۔ بادشاہ کے حکم کی تعمیل کی گئی۔  اس واقعہ سے ستہ ریشی دل برداشتہ ہو گئے۔ اس قتل عام سے وہ مغموم اور دل شکستہ ہوئے۔مالئہ ون  کے تمام لوگوں کا قتل کیا گیا اور ایک حاملہ خاتون اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گئی  اور اس نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔

 غلام رسول کہتے ہیں کہ  جب وہ بیٹا جوان ہوا تو اس نے”مجدہ کن”  میں چراغ جلنے کی وجہ اپنی ماں سے دریافت کی۔ ماں نے سارا قصہ اپنے بیٹے کو سنایا کہ کس طرح ان  سات ریشیوں کی شکایت پر ان کے گاؤں کا خاتمہ کر دیا گیا تھا۔

 جوان بیٹے نے ہاتھ میں تلوار اٹھائی۔ فجر کا وقت تھا۔ ستہ ریشی نماز فجر ادا کر رہے تھے  اور جوان نے بدلے کی آگ میں  سبھی اولیاۓ کرام پر گہرے وار کئےاور یہ سبھی حضرات زخمی حالات میں ادھر ادھر بکھر گئے اور اکنگگام کے پہاڑی سلسلے میں ایک ایک کر کے فوت ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ستہ ریشی اکنگام  کی پہاڑیوں میں جگہ جگہ مدفون ہیں۔(  حالانکہ یہ  غلام رسول کی زبان سے کہی گئی کہانی ہے  جس سے متفق ہونا لازمی نہیں ہے  کیونکہ  اگر اس وقت کا بادشاہ اکنگام  کا دورہ کرتاتو یقیناً  تاریخی کتابوں میں کہیں نہ کہیں اس چیز کا ذکر ضرور ہوتا ہے)۔

 ستہ ریشی صاحب کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں اور نہ ہی تاریخی  یا اسلامی کتابوں میں ان کے بارے میں زیادہ کچھ لکھا گیا ہے۔ یہاں کے کچھ باشندوں  اور زیارت پر معمور  لوگوں سے بات کرنے پر جو معلومات حاصل ہوئی ہیں ،میں نے ان کو قلم بند  کرنے کی ایک کوشش کی ہے۔

 زیارت ستہ ریشی کو  ایک خوش کن زیارت گاہ بنایا جا سکتا ہے۔اکنگام  کے دلکش پہاڑوں میں واقع یہ زیارت شریف ہمیشہ سے سرکار کی نظروں سے اوجھل رہی ہے۔ آج کے جدید دور میں بھی  ایک آدمی کو دو میل  کا کچا راستہ پیدل چل کے طے کرنا پڑتا ہے اور سرکار کی جانب سے اس زیارت شریف تک جانے کے لیے محض ایک سڑک کا قیام تک عمل میں نہیں لایا گیا ہے۔ ضلع انتظامیہ نے بھی اس زیارت شریف کو نظر انداز کیا ہے۔ ہم یہی امید رکھتے ہیں کہ آنے والے وقت میں  زیارت ستہ ریشی صاحبؒ   کو ایک تاریخی مقام یا زیارت گاہ  بنانے میں سرکار ضرور اپنا فرض ادا کرے  گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں