150

مفت خوری اور ناشکری کی عادت

ڈاکٹر محی الدین زور ؔ کشمیری

Ungrateful people forget what they are greatful for (Ana Monnar)
کشمیریوں کی روایتی سوچ ہے کہ ہم لوگ اپنی ہر خوشی اور غم میں حکومت اور انتظامیہ کو شریک کر ہی لیتے ہیں، جیسے شام کے وقت فٹ پاتھ پر ایک شخص ریڑی لگاتا ہے اور ٹکہ بوٹی بیچتا ہے یعنی صبح کے وقت قصائی سے ایک دو عدد سری (جانور کی) خرید لی اور دن کے وقت وہ اس کو تیار کرلیتا ہے اور شام کے وقت کوئلہ پر بون کر ان نوجوانوں کو کھلاتا ہے جو اپنے گھروں میں بڑے ناز و نخرے کرکے اپنی ماں بہن بیوی کا کھانا کھاتے ہیں اور کھانے کے دوران اس میں سو طرح کے نقص بھی نکالتے ہیں مگر پتہ نہیں ٹکہ بوٹی والے کے ہاتھوں میں ایسا کون سا جادو ہے کہ ان کی بنائی ہوئی ڈش کو وہ لوگ انگلیاں چاٹ چاٹ کر کھالیتے ہیں۔ خیر کھانے والے کو چھوڑو- کھلانے والے کو ایک بار پوچھو:
بھائی کیسے کام چلتا ہے؟۔
کچھ بھی نہیں۔ یہ کام اچھا تو ہے مگر اگر سرکار کچھ مدد کر لیتی۔۔ کچھ نہیں کرتی ہے سرکار۔۔۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے ہزار ڈیڑھ ہزار روپیہ گو وہ شخص روزانہ منافع کماتا ہوگا وہ الگ بات ہے کہ اس کو دس بیس ہزار روپیہ قصائی کا قرضہ ہوگا۔؟
یہ بات غور طلب ہے کہ یہاں ہر شخص سرکار سے ایک ووٹ کے عوض کتنی امیدیں رکھتا ہے۔ ٹھیک ہے جو چیزیں عوامی ضروریات کی ہوں سرکار کو وہ چیزیں عوام کو فراہم کر دینا اولین فرض ہے۔ جیسے سڑک، بجلی، پانی، اسپتال، تعلیمی ادارے، عوامی پارکیں۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ بھی لوگوں کی فلاح اور بہبودی کے لئے طرح طرح کی اسکیمیں ہوتی ہیں، جن سے حقدار جائز طریقے سے فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ ساتھ ہی بہت سارے روایتی کام یا دستکاری وغیرہ کہ جن کا تعلق کسی بھی خطے یا علاقے یا مجموعی طور پر ملک کے کلچر سے ہوتا ہے، اب ٹکنالوجی یا بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ انہیں دھچکہ لگ گیا ہے، تو اس سے ایک طرف فنکاروں کا ایک طبقہ بے کار ہوگیا اور دوسری طرف جو فنکار ہماری پہچان تھی اسے ہم محروم ہونے جا رہے ہیں تو ان فنکاروں کو اور فن کو بچانے کے لئے بھی سرکار کو سامنے آنا چاہئے اور اس فن سے وابستہ افراد کو بھی مالی مدد دے دینا چاہئے تاکہ یہ فن زندہ رہے اور ہماری پہچان دنیا میں برقرار رہے۔!
یہ بھی ضروری ہے کہ اگر کوئی چیز بازار میں نئی آئی ہے اور عوام کو اس کی افادیت کی کچھ زیادہ خبر نہیں ہے، مگر ماہرین کے مطابق اس نئی چیز سے عوام کو بہت فائدہ مل سکتا ہے، چاہے وہ زراعت کی کوئی نئی مشین یا ٹکنیک ہو یا پھر کوئی خاص دوائی، کوئی خاص سامان وغیرہ۔ اس ضمن میں بھی سرکار کی طرف سے لوگوں کو یہ چیزیں خریدنے کے لئے یا پھر نئی نئی مشینیں یا کارخانے لگانے کے لئے قرضہ اچھی سبسڈی کے ساتھ ملنا چاہئے۔ یہ الگ بات ہے کہ دنیا میں ایسے بھی ممالک ہیں کہ جہاں بچے کی پرورش سے لے کر گھر بنانے تک کے لئے سرکار لوگوں کی مدد کرد یتی ہے لیکن ہم ایشیا میں رہنے والے لوگوں کے لئے یہ کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہے کیونکہ پڑوس میں طبقہ اشرافیہ یا سیاسی لوگوںکے پاس اتنی زمین ہے کہ وہاں یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں منسٹر کی زمین سے ایک گھنٹہ ٹرین چلتی ہے۔ اسی طرح دلی ہندوستان کا دل ہے لیکن G20 والوں کی آمد سے کئی جھگی بستیوں کو اونچی دیواروں میں بند کر دیا گیا۔ اس لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ سرکار آپ کے ہر چیز کا خود خیال رکھے گی۔
اچھا ہم بات کر رہے ہیں کہ کشمیر میں برف باری ہوئی، یا ندی نالوں میں معمولی پانی آگیا تو ہم سرکار سے مدد چاہتے ہیں۔ سڑکوں کا حال تو ٹھیک، ہم سرکار سے کبھی یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ میرے کوچے یہاں تک کہ میرے آنگن سے بھی برف ہٹاؤ ورنہ میں باہر نہیں نکلوں گا۔ گندگی میں ڈالوں گا اور اس کو اٹھانے کے لئے سرکار آئے گی۔ میرا پیر پھسل جائے گا۔۔۔ میرے بچوں کو گندگی سے انفکشن ہوتا ہے۔ اس حمام میں اپنی اپنی جگہ ہم سب ننگے ہیں۔ کشمیر کا ایک فنکار کامیڈی کرنے کے علاوہ تین اور کام کرتا ہے، یہاں تک کہ سرکاری نوکری بھی کرتا ہے۔ جب ان کی شادی ہوئی تو میڈیا سے بات کرتے ہوئے وہ یوں بولا، کہ میں تو کشمیر کا سپر سٹار ہوں۔ آج یہ صرف میری خوشی نہیں ہے بلکہ آپ سبھی لوگوں کو خوشی ہے، مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ سرکارنے شادی میں میری کوئی بھی مدد نہیں گی۔۔۔!
مجھے یہاں ایک اور بات یاد آگئی کہ ہر فنکار اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھتا ہے۔ اسے ہم فنکاری زبان میں "خود اعتمادی” بھی کہتے ہیں۔ جیسے راج کمار کو اپنے زمانے میں بالی ووڈکے اسٹاروں کے بارے میں جب پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دے دیا کہ فلم انڈسٹری میں دو اسٹار ہیں پہلے میں اور میرے بعد دلیپ کمار۔۔۔
یہ ہماری خود اعتمادی ہے، خودداری ہے، تکبر ہے، غرور ہے یا علامہ اقبال کی خودی کو ہم نے اتنا بلند کیا ہے کہ ہم آسمان سے باتیں کرنے لگتے ہیں۔ اب زمین پر ہمارے پیر ہی نہیں ٹھہرتے ہیں۔ زمینی سطح کے مسائل کا ہم جائزہ کیوں لیں گے کیونکہ چندریان کی کامیابی کے بعد ہم نئی نئی کالونیوں میں زمین لینے کے خواہش مند نہیں ہیں اور نہ کسی سیاحتی مقام پر زمین لینا چاہتے ہیں۔ باہر کی زمین لینے سے بھی ہم کتراتے ہیں، بلکہ ہم سیدھے چاند پر زمین لیں گے۔ فی الحال اگر ہم اس کو دوربین سے ہی دیکھ لیں گے اور وہ وقت بھی ضرور آئے گا، جب ہم باہوں میں باہیں ڈال کر ایک ساتھ گائیں گے، چلو دل دار چلےچاند کے پار چلے۔ ہم ہیں تیار چلیں۔۔۔۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ اگر باپ ڈاکو ہوتا ہے تو بیٹا گبر بن جاتا ہے۔ اسی طرح میری نظروں میں جو لوگ مذہب کا دم کچھ زیادہ ہی بھرتے ہیں، ان کے بچوں نے شدت پسندی، مسلک بازی۔۔۔ وغیرہ وغیرہ میں سبھی حدود پار کر لئے۔ ٹھیک اسی طرح ہماری ایک نسل کی جب ہوا رک جاتی ہے تو وہ سرکاری مدد کے لئے اپنا گلہ پھاڑنے لگتی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ایسی نوجوان نسل تیار ہو رہی ہے۔ جنہیں ہم مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھاتے ہیں۔ اور اس نسل کی خوش بختی یا بد بختی ہم کہیں گے کہ انہوں نے منسٹر یا سرکار ابھی تک نہیں دیکھی نہ اب وہ لوگ زندہ باد مردہ باد کرتے ہیں۔ اس لئے ان کے نزدیک سرکار کا مطلب ہوا سرکاری ماسٹر، لیکچرار یا پروفیسر۔ ادھر سرکاری تعلیمی اداروں میں کچھ کھانا، اسکالر شپ وغیرہ ملتا ہی ہے۔ اب مفت خوری کا عالم یہ ہے کہ اگر ایک سرکاری مدرس احتیاط نہ کرلے گا، تو ان کے طلبہ آکر اس کو۔۔۔ اور وہ چھٹی کے وقت۔۔۔ گھر جائے گا۔۔۔!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں