130

بے کاری میں دربار سجانے کی روایت

ڈاکٹر محی الدینؔ زور

Much Effort, Much Prosperity (Euripides)
2014 میں کشمیر خاص کر سرینگر غرق آب ہوا۔ عام طور پر قحط، سیلاب، طوفان وغیرہ کو آفات سماوی Natural Disaster کہا جاتا ہے۔ یعنی یہ سب کچھ قدرت کی طرف سے ہوتا ہے اور اس سے انسان، حیوان، چرند، پرند، ہماری جائیداد، فصلیں، یہاں تک کہ ہمارا ماحول اور قدرت کی حسین زمین بھی تباہ و برباد ہو جاتی ہے، البتہ کچھ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ سیلاب سے کسی حد تک فائدہ بھی مل جاتا ہے۔ جیسے اونچے اونچے پہاڑوں کی زرخیر مٹی سیلاب اپنے ساتھ لاتا ہے اور یہی مٹی جب کسی بنجر زمین پر بیٹھ جاتی ہے تو اس زمین کو ہموار بنانے کے لئے تھوڑی سی محنت کرلینی پڑتی ہے۔ اس کے بعد یہ زمین بھی طرح طرح کے فصلوں سے لہلانے لگتی ہے۔
تو جناب سیلاب پر بات کرتے ہوئے ہمیں یہ بھی یاد آگیا کہ کشمیر میں 2014 کے بعد اس مسئلے پر ہمارے دانشور، انجینئر، سیاست داں بات کرنے لگے اور اکثر لوگوں کی یہی رائے تھی کہ ہم اس سیلاب کی تباہی کے خود ذمہ دار ہیں کیونکہ بمنہ سے لیکر راجباغ تک جو سیلابی علاقہ مہاراجہ نے قرار دے دیا تھا اس میں سرکار اور عوام دونوں نے بڑے بڑے تعمیرات کھڑے کر دیئے۔ دوم دریائے جہلم کو ہم نے گندہ کیا، سوم گاؤں اور قصبہ جات میں جو بڑی بڑی ندیاں اور نالے بہتے تھے، انہیں ہم نے کہیں تنگ کیا اور کہیں ان کا ہم نے نام و نشان ہی مٹا دیا۔ بارش کو برسنا ہے، پانی کو بہنا ہے، یہ جائے تو کہاں جائے گا، اس لئے نہ قدرت کو اور نہ کسی دوسرے کو قصور وار ٹھہرادو بلکہ خود اپنا محاسبہ کرلو اور توبہ کرلو۔!
اس سیلاب پر ہی مجھے ایک اور واقعہ یاد آگیا۔ اس وقت کے ایک سیاست کار نے اپنے محل میں ایک پریس کانفرنس بلوائی اور حسب عادت اور حسب روایت وہ اس سیلاب کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرانے لگا۔ اگر وہ جماعت یہاں ایسا نہ کرتی، تو یہ سیلاب نہیں آجاتا ، اگر مرکزی سرکار میرے شرائط کو مان جاتی اور مجھ سے بات چیت کرلیتی تو یہ سیلاب نہ آجاتا۔ ان کی اس مسخری کو جان کو آخر کار باہر کے ایک صحافی نے انہیں طنزاً پوچھا:
جناب آپ شاید اس ناگہانی بھلا پر بھی سیاست کرنے میں اتنے مشغول ہیں کہ آپ کو یہاں اپنے گھر آفس کی صفائی کروانے کی فرصت بھی نہیں ملی۔؟
ہمارا سیاست کار بھی کتنا حاضر جواب اور ذہین تھا کہ نہ اپنے ذہن کو اور نہ اپنی زبان کو روک سکا اور یکلخت بولا- سرکار نے ہوائی جہاز میں بہاری مزدوروں کو سوار کرکے کشمیر سے باہر نکالا اور آج کل یہاں مزدور نہیں ملتے ہیں۔
تو اس طرح کشمیر سے باہر سبھی صحافتی اور دانشور حلقوں میں یہ بات برسوں تک چلی کہ کشمیری لوگ سیلاب میں باہر کے مزدوروں کے بغیر اپنی صفائی بھی نہ کر پائے اور وہ زندگی کی گاڑی کو کیسے آگے لے جائیں گے۔
آج ہمارا اصل موضوع سیلاب نہیں ہے بلکہ کچھ اور ہے۔ اس ضمن میں مجھے ایک کشمیری محاورہ بھی یاد آگیا۔ کتّوں کا حمام” یعنی موسم سرما میں جب کتّوں کو سخت سردی لگتی ہے تو وہ برف پگل جانے کے بعد موسم بہار میں اپنے لئے ایک گرم حمام بنانے کا پروگرام ترتیب دیتے ہیں تاکہ آنے والے سرد موسم میں انہیں ایسی دقتوں کا سامان نہ کرنا پڑے، لیکن سارے موسم یوں ہی نکل جاتے ہیں، مگر ان کا حمام کبھی نہیں بن پاتا ہے۔ اُردو میں بھی اس سے تھوڑا ملتا جلتا محاورہ ہے "آگ لگنے پر کنواں کھودنا”۔ ہمارے کشمیر کو سوبار سخت ٹھنڈی بھی لگ گئی اور آگ بھی لگ گئی، مگر نہ ہم نے کبھی اپنے لئے گرمی کا انتظام کیا اور نہ اس آگ سے بچنے کے لئے کنواں کھودکے رکھا البتہ ہم ہمیشہ کہتے رہے یہ دوسروں کی سازش ہے۔ دوسرے ہمارے لئے کچھ نہیں کرتے ہیں یا یہاں ایک بڑا طبقہ ہر کام میں غیبی مدد کے انتظار میں ہے اور بریختؔ کے دو کرداروں کی طرح گودو کا انتظار کر رہے ہیں (Waiting for Godot)۔ جن کا گودو کبھی نہیں آتا ہے اور ان کا وقت یوں ہی سوچتے سوچتے باتیں کرتے کرتے نکل جاتا ہے۔ حالانکہ یہ بات صحیح بھی ہے کہ بیکار لوگوں کے پاس باتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں اور اگر غور سے دیکھا جائے گا تو ان کی زیادہ تر باتوں میں بہت دم بھی ہوتا ہے۔ یعنی لا یعنیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ دراصل بات سوچنا، یا بات کرنا، یا دوسروں کے ساتھ کسی موضوع پر گفتگو کرنا بھی ایک فن ہے۔ بے کار، آلسی، مفت خور۔۔۔ وغیر ہ وغیرہ لوگ اس فن کو خوب جانتے ہیں کیونکہ ان کے پاس فرصت ہوتی ہے۔ جفاکش لوگ اپنا وقت کسی فائدہ مند کام میں لگاتے ہیں۔ کام سے تھکاوٹ ہو جاتی ہے۔ کبھی کبھار کام کے دوران کھانے پینے کا وقت بھی نہیں مل جاتا ہے۔ پھر یا تو بھوکے رہتےہیں یا کم کھاتے ہیں یا وقت پر کھانا نہ کھانے کی وجہ سے لذیذ نعمتوں میں بھی مزہ نہیں آجاتا ہے اور نہ یہ پوری طرح سے ہضم ہو جاتا ہے۔ تھکاوٹ کی وجہ سے نیند آتی ہے۔ اس کے برعکس بے کار کے پاس وقت ہی وقت ہوتا ہے۔ اسے بس مفت کا کھانا چاہئے اور وہ اسے مزہ لے لے کر کھائے گا۔ ہو سکے تو اس پر ایک آدھ لیکچر بھی دے گا، نقص بھی نکال سکتا ہے۔
میرے ایک جانکار دوتین مہینوں کے بعد اپنا پیشہ تبدیل کرتا ہے اور ان کا زیادہ تر وقت بے کاری میں ہی گذر جاتا ہے کیونکہ ان کے باپ نے قسم کھالی کہ جب تک میں زندہ رہوں گا، تب تک میں اپنے بیٹوں کو اپنی جائیداد سے ایک تنکا بھی نہیں لینے دوں گا کیونکہ باپ آخر باپ ہوتاہے۔ اور ان کا بیٹا اور بہو اس کے غلام یا نوکر ہیں کیونکہ ساری جائیداد کا مالک باپ ہی ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی خدمت کے لئے ایک فارمیٹ بھی دے رکھا ہے اور محلے کی ساری برادری چاہتی ہے کہ ایسا ہی نظام رائج ہو جہاں گھر کا سارا نظام ایک باپ کے ہی ہاتھوں میں ہونا چاہئے۔ اگر چہ اس کی عمر ایک سو برس بھی ہو اور ان کے پڑپوتے بھی ہوں۔ وہ اگر یہ بھی چاہے گا کہ ان کی تیسری چوتھی نسل انگوٹھا چھاپ رہے تو اس بات پر انگلی اٹھانا بھی کسی کی مجال نہیں کیونکہ ہم روایت کے پاسدار ہیں۔ اچھا میرا یہ جانکار حساب کا پکا ہے۔ جہاں کام پر جاتا ہے وہاں کچھ ہی دنوں میں ان سارے معاملات کا پتہ لگاتا ہے کہ مالک نے کتنا کما لیا ہے اور مجھے اس کا حصہ کیوں نہیں دیتا ہے۔ مزدوری تو ہر کوئی کرتا ہے۔ اس بیچ میں اگر مالک کوکاروبار میں نقصان ہوا تو پہلے ہی گدھے کی سینگ کی طرح غائب ہو جاتا ہے۔ اگر منافع ہوا تو مالک کے ساتھ لڑائی کرکے ترک تعلقات کر دیتا ہے اور نانبائی کی دوکان پر دھواں کتنا بھی زہریلا ہو مگر وہ وہاں اٹھنے کا نام ہی نہیں لے لیتا ہے وہاں دروازہ بند کیا گیا تو نائی کی دکان کھلی وہاں دربار سجایا گیا اور اس طرح ان جگہوں پر بڑی بڑی حکومتیں گرائی جاتی ہیں اور ایسی حکومتیں بنائی جاتی ہیں کہ جن کا کہیں وجود بھی نہیں ہوتا ہے!۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں