184

من مانی کی عادت : صلاح کیوں؟

ڈاکٹرمحی الدین زورؔکشمیری

The worst of all deceptions is self deception (Plato)

کشمیری زبان کا ایک قول ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کے پاس مشورہ لینے کے لئے گیا اور وہاں اسے پوچھا:
"خدا کے واسطے مجھے فلاں کام کرنے کے لئے مشورہ دے دو، مگر میں تو وہی کروں گا، جو میرا من چاہے۔”
اب مجھے بتاؤ اگر کوئی شخص زندگی کے ہر معاملے میں اپنی ہی من مانی کرتا ہے، تو بھلا وہ کسی کے پاس مشورہ کرنے کے لئے کیوں جاتا ہے یا پھر ایسے لوگوں کو نیک مشورہ دینا بھی جائز ہے یا نہیں ہے۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی! ویسے ہم کبھی کبھار اپنی نادانی یا معصومیت میں ایسا بھی کچھ کہتے ہیں جو کسی کے لئے تلوار کا کام کرتا ہے یا ہمارے لئے وبھال جان یا ہماری کمزوری یا ہماری بدنامی کا باعث بھی بنتا ہے، یہ ہنسی کی بات ہے کہ ایک سیدھی سادھی بڈھیا اکثر بولتی تھی:
اُف اُف پتہ نہیں میں نے اپنے ان ہمسائیوں کا کیا بگھاڑا ہے، جب بھی ان کے گھر میں کوئی چیز غائب ہوجاتی ہے تو وہ صرف میرا ہی نام لیتے ہیں اور مجھے چورنی۔۔۔ نہ جانے کن کن ناموں سے پکارتے ہیں، مگر وہ چیز پھر میرے ہی گھر سے برآمد ہوتی ہے۔۔۔!”
تو جناب آج ہم بات کریں گے دوسروں سے کسی کام کے بارے میں مشورہ صلاح لینے کا۔ یہ ضروری ہے کہ آپ کسی نئے سفر پر جا رہے ہیں، تو جو لوگ ان راستوں سے گذر چکے ہیں، ان سے معلومات یا رہبری حاصل کرلیں گے، اس سے ضرور آپ کا سفر آسان ہو جائے گا۔ اسی طرح آپ کوئی نیا کام کرنے جا رہے ہیں۔ تو اس فیلڈ سے تعلق رکھنے والےماہرین یا ورکروں سے صلاح و مشورہ ضروری ہے۔ ٹھیک یہی حال تعلیم کے میدان کا بھی ہے۔ یہاں ضمناً یہ سوال بھی اُٹھتا ہے کہ آج کل 5G کا زمانہ ہے۔ تو ہم کیوں کسی کے پاس جائیں گے، سیدھے "گوگل انکل” سے پوچھیں گے۔ اس کا جواب صاف ہے کہ زندگی کے ہر معاملے میں بس انٹرنیٹ سے ہی کام نہیں ہو سکتا ہے جیسے آپ کو بیوی بچوں یاروں دوستوں، رشتہ داروں سے رشتہ نبھانا ہے۔ تو اس کے لئے ان کے پاس جانا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ہم یہاں خلائی، فضائی، برقی۔۔۔۔ وغیرہ دنیا کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ زمین پر بسنے والے انسانوں جنہیں "اُنس” محبت کرنے والے کہا گیا ہے۔ ان کے چند اہم مسائل پر بات ہو رہی ہے۔ آج سے کئی برس پہلے مجھے ایک شخص نے بولا۔ آج کا انسان "کتّا ہے کوّا نہیں”۔ میں نے انہیں کہا بھائی صاحب اپنے قول کی کچھ وضاحت فرمایئے میں کم فہم آدمی ہوں۔ انہوں نے یوں فرمایا۔ دیکھئے کوّا جب اپنی رزق (مردہ جانور کا گوشت) کھاتا ہے، تو کائیں کائیں کرتا ہے۔ یعنی وہ دوسرے کوؤں کو بھی شریک دعوت کرتا ہے۔ اسکے برعکس جب ایک کتّا وہی گوشت کھاتا ہے، تو دوسرے کتّے کو دیکھ کر غُرانے لگتا ہے!۔
خیر ہم انسان ہیں اور ہمیں ہمیشہ رزق حلال ہی کھا لینا چاہئے، لیکن جو کچھ بھی ہم کھائیں گے، اس میں ہم دوسروں کو ضرور شامل کرلیں گے، مگر یہاں میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے گھر میں بار بار دستر خواں بچھالیں گے اور پورے محلے کو بلالیں گے، اس طرح انہیں مفت کھانے کی عادت پڑ جائے گی۔ اس بات پر مجھے یاد آگیا۔ میرے ایک جانکار بڑے اصول پرست اور کسی حد تک تیز طرار بھی ہیں، ان کے والد صاحب سادہ منش تھے، ہر کسی راہ گیر، کبھی کبھار اُلٹے سیدھے ایرے غیرے کو کھانے پینے کی دعوت دیتے تھے۔ ایک روز مسجد میں کسی پیشہ ور بھکاری کو دیکھا انہیں اپنے ساتھ اپنے گھر لے آیا، اچھا خاصا کھانا کھلا لیا پھر بھکاری نے اپنے منہ میں حقے کا نقچہ لے لیا اور منہ سے دھواں کے گولے بھی پھینکنے لگا۔ اسی دوران وہ کھانے میں نقص نکالنے لگا، یہاں تک کہ ساس بہو کی ناتجربہ کاری کے بارے میں بہت کچھ فرمانے لگا۔ اور یہ بھی کہنے لگا کہ آپ کا مکان بہت بڑا ہے۔سب کچھ اللہ کا دیا ہوا ہے، کیوں نہ میں دن بھر تھک پھوٹ کر آرام کے لئے شام کو یہاں ہی ڈیرا جمالوں۔ تو میرے جانکار نے انہیں کہا اچھا فقیر قلندر صاحب آپ نے یہاں اللہ کا دیا ہوا کھانا کھا لیا اور اب فوراً اللہ کی راہ پر یہاں سے نکل جایئے گا ورنہ آج کل حالات خراب ہیں۔ تم تو اس گاؤں میں اجنبی ہو غیر ۔۔۔۔ اور پتہ ہے پریڈ میں اجنبیوں کا کیا کیا جاتا ہے!۔۔۔۔
ہمیں کچھ کہنا ہے کہ لوگ اتنے لالچی اور متعصب ہیں کہ وہ کسی کو بھی اچھا مشورہ نہیں دے سکتے ہیں۔ جیسے پڑھنا لکھنا اور پھر نوکری کرنا صرف میرے خاندان کا حق ہے۔ میں دوسروں کو کیوں صحیح راستہ دکھاؤں گا۔ کشمیر سینکڑوں برسوں سے ایسی غلامی کا شکار ہے جہاں ایک مخصوص طبقے نے علم و ادب کو اپنے خاندانوں تک ہی محدود رکھا اور پھر اپنے سیاسی اثر و رسوخ سے بھی اس چیز کا بڑا فائدہ اٹھا لیا۔ اب پچھلے دو تین برسوں سے وہ سارا بدلنے لگا!۔
اسی طرح کاروبار اور دیگر ترقیاتی کاموں، پیشوں وغیرہ کا بھی یہی حال ہے جب ہم تدریس teaching کی بات کرتےہیں، تو یہاں guidance and counceling پر بھی زور دینا لازمی ہے، مگر آج کل کے دور میں خاص کر کشمیر میں تدریس کے میدان میں یہ پہلو بہت کمزور اور بے مقصد سا ہوگیا ہے۔ ایک استاد نے کسی بھی لیول پر پڑھایا، نصاب کے مطابق درس دے دیا، اب جذبہ پیشہ اور خلوص کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے طلبہ کو کہتا ہے کہ آپ فلاں فلاں کتاب پڑھ لو اور اسی سے اپنی تالیقات notes تیار کرلو۔ بچے دوسرے دن فوٹو اسٹیٹ والے سے برسوں پہلے تیار کردہ گھسے پٹے مختصر نوٹس لاکر اپنے استاد کو دکھاتے ہیں اور اسے کہتے ہیں پلیز انہیں چک کر لیجئے۔ یعنی Text Book بھی نہیں خرید پاتے ہیں اور نہ لائبریری جانے کی تکلیف کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک استاد کو اپنی پیشہ ورانہ نظر ہوتی ہے کہ میٹرک، بارہویں، گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کے بعد ان کے کس طالب علم کو کیا کچھ کرلینا چاہئےیا کس طالب کےلئے کون سا سبجیکٹ موزوں رہے گا، مگر طلبہ ہیں۔ اپنے پیر گروپ کے ساتھ چلیں گے یا ان کے والدین ان کا میڈیکل ایڈمیشن خود خرید لیں گے، چاہے انہیں کچھ آتا ہے یا نہیں۔ ان کی دلچسپی اس لائن میں ہے کہ نہیں البتہ والدین کو اپنا سوشل اسٹیٹس برقرار رکھنا ہے۔ کہیں طلبہ بھی اپنی من مانی کرتے ہیں اور بغیر محنت کے بڑے بڑے خواب دیکھتے ہیں۔
یہاں ایک اور مسئلہ بھی ہے کہ ہر کوئی استاد guidance and counceling کے لائق بھی نہیں ہوتا ہے کیونکہ بہت سارے اساتذہ بھی تعصب کی بیماری کے مریض ہوتےہیں۔ اور وہ کیسے چاہیں گے کہ کسی مزدور، کسان، دکاندار یا پھر First Race Learner بچہ آگے بڑھے گا کیونکہ ان کے خود کے بچے۔۔۔
اسی طرح کچھ اساتذہ معصوم اور اپنے حال سے بے خبر ہوتے ہیں جیسے مجھے ایک دن ایک کالج کے ایک بڑے پروفیسر نے کہا نائب تحصیلدار اور IAS کا گریڈ برابر ہوتا ہے!۔ ایسے پروفیسروں کے طلبہ کا خدا ہی حافظ۔!
اب چلتے چلتے یہ آنکھوں دیکھی بھی تحریر کروں گا کہ کسی شخص کی بیٹی تیس سال کی عمر پارکر گئی اور محلے والے ان پر فقرے کس رہے تھے تو ایک ذمہ دار بزرگ شخص شام کے وقت ان کے گھر گیا تاکہ وہ ان کی بیٹی کی بات کہیں کروالے گا، مگر وہاں گھر کےبیشتر افراد موبائل فون کے ساتھ لگے تھے اور اس بزرگ سے کسی نے بات بھی نہیں کی، وہ بڑی شرمندگی سے وہاں سےدبے پاؤں واپس نکل گئے؟۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں