288

کشمیر میں بچوں کی تعلیم کے لئے نئے اقدامات کی ضرورت

ڈاکٹر محی الدین زورؔ کشمیری

خزاں کا دور ہے گھبرا نہ بلبلِ غمگین
خزاں کے بعد ہی پھر موسم بہار بھی ہے۔
(عروح قادری)

فلم ”غدر اک پریم کتھا“ میں ڈائریکٹر نے اپنے ہی بیٹے کو سنی دیول کے بیٹے کے رول کے لئے کاسٹ کیا۔ اب مسئلہ تھا کہ ٹرین والا منظر کیسے شوٹ کیا جائے کیونکہ ان کی بیوی نے انہیں اس خطرناک منظر کو شوٹ کرنے کی اجازت نہیں دے دی تھی۔ تو ڈائریکٹر نے ایک روز دعوت کا بہانہ بناکر اپنی بیوی کو جھوٹ بولا اور کسی طرح اس منظر کو اس دن فلمایا گیا۔ زندگی میں کچھ حاصل کرنے کے لئے یا پھر کسی چیز کی تحقیق و تفتیش کر لینے کے لئے ایسے رسک لینے ہی پڑجاتے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان میں بھی ایک پولیس افسر نے کئی معصوم بیٹیوں کو بچانے کے لئے اپنی بیٹی کو خطرے میں ڈال دیا اور اس طرح وہ باہمت افسر ان بدمعاشوں کے ٹھکانے تک پہنچ گیا۔ انہیں پھر اللہ تعالیٰ نے اچھی طرح کامیابی دے دی اور ان کی اپنی بیٹی کے ساتھ ساتھ قوم کی دیگر بیٹیوں کی عزت و آبرو بھی بچ گئی۔!
آج ہمارا موضوع ہے ”تعلیم“۔ اس موضوع پر بہت کچھ کہا جا رہا ہے اور لکھا جا رہا ہے، لیکن اس کے باوجود کوئی اُمید نظر نہیں آرہی ہے۔ کیوں؟
کیا ہمارے پاس اچھے ماہرین تعلیم نہیں ہیں، جو اس کی خستہ شدہ عمارت کو پھر سے تعمیر کرنے میں اپنا ہاتھ نہیں بٹاتے ہیں! یا پھر سرکار کی ترجیحات میں تعلیم نہیں ہے۔! عوام کا اس مسئلے کے بارے میں کیا رد عمل ہے۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک گنوار، ایک چور ڈاکو، ایک مفلس لاچار۔۔۔ شخص کی پہلی یہی خواہش ہوتی ہے کہ میرا بچہ کسی طرح تعلیم کے نور سے منور ہوجائے۔ اس کے لئے وہ اپنی طرف سے لاکھ کوشش کرتا ہے۔ ڈاکو بھی پہلے اپنے پیشے سے اپنے بچے کو دُور رکھ کر اس کو تعلیم کی طرف راغب کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح غریب لاچار خود دھوپ میں جھلستا ہے، سردی میں ٹھٹھرتا ہے۔ ان حالات میں مزدوری کرتا ہے۔ خود آدھی روٹی کھاتا ، چھتیڑے پہن کر بھی اپنے بچوں کو اچھی اسکولی وردی میں دیکھنا چاہتا ہے۔!
ہمارا تعلیمی نظام جب ان سارے لوگوں کے ارمانوں کا گلہ گھونٹتا ہے، تو پھر مجبوراً گنوار کا بچہ گنوار ہی رہتا ہے، ڈاکو کا بیٹا ڈاکو ہی بنتا ہے۔ البتہ امیر لوگ اپنے بچوں کی تعلیم کا بندوبست کسی طرح کر ہی لیتے ہیںاور پھر ان کی اپنی مرضی ہے۔
”خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے“۔ وہ لوگ ڈگری اور سفارش سے سرکاری نوکر بھی لگ جاتے ہیں، یا اگر انہوں نے کوئی ٹیکنیکل کورس کیا ہے، تو وہ کہیں بھی اچھی دوکان کھول سکتے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں اپنی سرٹیفیکیٹ لے کر جا سکتے ہیں۔ مگر ان حالات میں ایک غریب کا کیا حال ہوتا ہے۔ اس کا مداوا کون کرے گا اور اس طرح ہماری سوسائٹی وہی پرانی غیر متوازن سوسائٹی رہ جاتی ہے۔؟ تو ورثے میں ہمیں سماجی اونچ نیچ اور غریبی ملتی ہے۔
ہم نے پہلے ہی کہا ہے کہ ماہرین تعلیم، انتظامیہ اور عوام کے بیچ میں ایک گیپ ہے، جس کو پاٹنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس خلیج نے جس مسئلے کو جنم دے دیا ہے، اس کے بارے میں بہت ساری باتیں کی جا سکتی ہیں۔ جس کی اصل حقیقت جاننے کی وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ ایسا بھی نہ ہوکہ ہم اس مسئلے کو اور بھی اُلجھاتے رہیں گے یا پھر مسئلہ کشمیر کی طرح اس کو اپنی اپنی طرف کھینچ لیں گے اور اس طرح یہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گا اور کسی کے ہاتھ میں کوئی قابل استعمال چیز نہیں آجائے گی۔ ہم نے ایجوکیشن میں کبھی اُس کو موردِ الزام ٹھہرایا اور کبھی اِس کو ، مگر کوئی مثبت نتائج ہمارے ہاتھ ابھی تک آئے ہی نہیں۔ اس طرح ہم وہیں پر رہے، جہاں سے ہم نے اپنا سفر جاری کرنا چاہا۔ یا ہم کسی غیبی آواز کے منتظر ہیں، جو اس دور میں آنے والی نہیں ہے!
ماہرین تعلیم نے آج تک اس مسئلے کے بارے میں جتنا بھی کہا ہے۔ وہ زیادہ یا تو کتابی علم ہے، یا پھر انہوں نے بدیش سے کوئی تھیوری لے لی اور وہ بغیر یہاں کے حالات اوریہاں کا ماحول دیکھے اس کو یہاں کی زمین میں اُگانا چاہتے ہیں جو کہ کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہے۔ علم پڑھ کر اس کو کیسے عملایا جائے یا اگر کچھ پالیسی تیار کر لینی ہے، اس کے لئے پہلے زمینی حقیقت کو جانا جائے، اس کے بعد اس کو اپلائی کرنے کی کوشش کی جائے۔ قومی حِس اور پیشہ ورانہ صلاحیت ہمارے ماہرین تعلیم میں نہیں ہے۔ وہ لوگ آئر کنڈیشنوں میں بیٹھ کر جھگی جھونپڑی میں بسنے والے لوگوں کی آباد کاری کے بارے میں سوچتے ہیں۔؟
تعلیم کے محکمے سے وابستہ افراد man power یا اساتذہ کی ایک ہی بڑی خامی ہے ، وہ ہے فرض شناسی۔ اگر یہ لوگ اس بات کو سمجھیں گے، باقی ان کو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہم ان کے لئے یہاں کچھ وعظ فرمانا چاہتے ہیں!
انتظامیہ اورحکومت اگر تعلیم کو اولین ترجیحات میں رکھیں گے، تو بہتر ہے۔ اس کے علاوہ اکیڈمک معاملات میں بے جا مداخلت نہ کریں، انتظامیہ اور تعلیمی اداروں کی تعمیر و ترقی میں اساتذہ سے مشورہ لے لیں۔ کبھی ان کے مشورے کے بغیر ہی تعلیمی ادارے بنائے جاتے ہیں اور پھر ان کی شیپ اصطبل جیسی ہوتی ہے اور کبھی سارا انتظام ان ہی کے ہاتھوں میں دیا جاتا ہے اور وہ لوگ پھر تعلیمی معاملات کو چھوڑ کر خرید و فروخت میں لگ جاتے ہیں، یہاں تک کہ باقی سرکاری ملازموں کی طرح پیسہ دیکھ کر ان کے منہ سے بھی رال ٹپکنے لگتی ہے۔!
سب سے اہم بات یہ ہے کہ عوام سرکاری تعلیمی نظام کے ساتھ کو آپریٹ نہیں کر پاتا ہے۔ شاید اس لئے کہ انہیں مفت میں تعلیم ملتی ہے اور وہ لوگ اس کو بیکار کی چیز سمجھتے ہیں اور پرائیویٹ تعلیم میں وہ بڑی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اسکولوں کو سدھارنے کے لئے پچھلے سالوں میں سرکار نے محلے کی کمیٹیاں بنائی ہیں۔ ان کی یہ مشق بالکل فیل ہو گئی اور اس سے ٹیچر کی صرف بے عزتی ہو گئی، کیونکہ وہاں خلوص کہیں نہیں تھا۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ محلے کی کمیٹی خود تعلیم والوں کے پاس آئے اور انہیں اسکول کی ترقی میں مدد کریں، کیونکہ ان کا اسکول، کالج، ان کے بچے انہیں اس کی رکھوالی یا نگہداشت کرنے کا فرض ہے۔ کوئی بھی ٹیچر آتا ہے اور کچھ سالوں کے بعد اس کی ٹرانسفر ہو جاتی ہے۔ محلے میں جب کوئی کسی کا نہیں ہے، جب ہر کوئی اپنے آپ کو لاٹ صاحب سمجھتا ہے، تو اسکول کو وہ لوگ کیا کچھ کریں گے اور ماسٹر کی عزّت کے تابوت میں آخری کیل انہوں نے ہی ٹھونک دی۔!
اب ان حالات میں ایک شریف انسان سرکاری اسکولوں یا تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو کیسے بھیجے گا، حالانکہ میرے ایک دوست ڈاکٹر معصوم مرزا نے اس قسم کی ایک پریکٹس کی تھی، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ وہاں کے ٹیچروں نے ان کے بچوں کو اسکول سے بھگانے کی لاکھ کوشش کی، کیونکہ انہوںنے سوچا تھا کہ یہ لوگ ہم سے حساب لیںگے۔ باقی جو دو چار بچے وہاں زیر تعلیم تھے، وہ بے چارے ان گھرانوں کے تھے، جنہیں یہ پتہ بھی نہیں تھا کہ ان کا بچہ کس کلاس میں پڑھتا ہے۔سرکار یا متعلقہ حکام یہ سوچیں یا نہیں کہ انہیں کیسے اس خستہ عمارت کو پھر سے تعمیر کرنا ہے، مگر عوام کو اپنے اور اپنے بچوں کے بارے میں خود سوچنا ہوگا کہ ان کی تعلیم و تربیت کا مسئلہ کیسے زمانے کے تقاضوں کے مطابق ہو سکتا ہے؟۔
آج کل کا دور بہت اچھا ہے۔ ایک طرف میڈیا اور ٹکنالوجی اور دوسری طرف ہر بات میں گلوبلائیزیشن۔ مجھے وہ زمانہ بھی یاد ہے ، جب کشمیر میں ایک طرف دوچار لوگ ریڈیو ، ٹی وی سے معصوم عوام کی مغز کھپائی کرتے تھے اور انہیں روائتی باتوں میں اُلجھاتے تھے۔ ٹھیک یہی حال یہاں کے اخبارات کا بھی تھا۔ مگر اب سب کچھ بدلا۔ لوگوں کے ہاتھوں میں انٹرنیٹ ہے، وہ لوگ دنیا کے کونے کونے کی سیر گھر میں بیٹھ کر کرتے ہیں۔ مگر ایک روایت ابھی بھی یہاں نہیں بدلی وہ ہے ہماری محفلوں، سمیناروں، پروگراموں اور تربیتی کورسوں میں وہی چند باسی چہرے ہمیں دیکھنے کو مل جاتے ہیں، جو برسوں سے ہمارے مغز چاٹ رہے ہیں، اور وہی فرسودہ باتیں ہمیں کہہ رہے ہیں، جن کی کوئی عصری معنویت ہی نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے اس ٹیپ ریکارڈر کو اگر بند کیا جائے تو کشمیری قوم کی کچھ ترقی دانشوری کے میدان میں ہو سکتی ہے! ۔چونکہ میرا مقصد یہاں ایجوکیشن کے بارے میں کچھ کہنے کا ہے اور بیچ میں یہ کچھ باتیں اس لئے آگئیں کیونکہ جب ہمارے ذہنوں پر ایسے لوگوں کا قبضہ ہوگیا، تو ہم کیسے بدل سکتے ہیں۔ اگر وہ خود اپنے بچوں کو اچھے اچھے اسکولوں میں ڈالتے ہیں، انہیں باہر بھیجتے ہیں ، نئے نئے علوم انہیں پڑھاتے ہیں، ٹریننگ کرواتے ہیں، ہم جیسے لوگوں کو وہ کیوں روایتی پاٹھ پڑھاتے ہیں؟۔
میرے ایک دوست ڈاکٹر دلاور ڈار کے ہاں اکثر بہاری مزدور زمینداری کاکام کرنے کے لئے آتے ہیں اور وہ مزدور وہاں اپنے بچوں کے فوٹو موبائل سے دکھاتے ہیں۔ جہاں وہ بچے اچھی اچھی وردیوں، ٹائی، اور بوٹ میں ملبوس اچھے اچھے اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ کچھ ہوسٹلوں میں رہتے ہیں۔ اس کے بعد وہی بچے دلی اور بڑے بڑے شہروں کے پروفیشنل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اسکالرشپ لے کر پڑھتے ہیں اور آگے بڑھ کر آئی اے ایس وغیرہ جیسے امتحانات بھی پاس کرتے ہیں
(بقیہ صفحہ نمبر ۱۱ پر)
(اس کے لئے ریتک روشن کی فلم سپر 30 بھی دیکھ لیجئے) جب وہ لوگ ایسا کر سکتے ہیںتو کشمیری زرخیر ذہن کو کیوں فرسودہ باتوں اور مختلف مسئلوں میں اُلجھایا جاتا ہے۔ اس اسکول میں وہ اچھا نہیں ہے، اُس اسکول میں پتہ نہیں کون سی تعلیم دی جارہی ہے، یہ اسکول فلاں ایجنسی کا ہے۔ یہ اسکول کمرشل ہے، یہاں لوٹ کھسوٹ ہے۔ فلاں ڈی سی، منسٹر نے گورنمنٹ سکول سے پڑھا ہے۔!
غرضیکہ اس سارے پروپیگنڈے کو اب ہمیں ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ سرکار میں ہر جگہ کیجریوال اور ممتا بینرجی (دیدی) جیسے لوگ نہیں بیٹھے ہیں۔ پورے برصغیر کے تعلیمی معاملات میں ایک جیسی خستہ حالت ہے۔ نہ ہم سسٹم سے لڑ سکتے ہیں اور ایک فرد کے لئے سسٹم کو تبدیل کرنا بھی مشکل یا نا ممکن ہے۔ میرے دوست معصوم مرزا کی طرح اور قربانی دینا بھی اب جائز نہیں ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے معاملے میں سوچ سوچ کر قدم اُٹھایا جائے تاکہ آنے والے دور میں ہمیں اپنے ہی بچے نہ کوسیں گے۔ یا ہماری قوم واویلا کرتی رہے گی اور دوسرے ہم پر اور زیادہ غالب آجائیں گے۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں