کچھ روز پہلے سوپور کا تاریخی پل جو جامع قدیم اور جامع مسجد کو آپس میں ملاتا ہے ایک بھیانک آگ کی نذر ہوچکا ہے، یہی کہا جاتا ہے کہ اس سے ملی ٹنٹوں نے خاکستر کرڈالا، پل کے خاکستر ہونے کے ساتھ ہی پتہ نہیں یہ افواہیں کیوں اڑ نے لگیں کہ فورسز کا پارہ چڑھا ہوا ہے اور وہ کسی بہانے کی تلاش میں ہیں ۔بہانہ ملتے ہی یہ لوگ سوپور والوں کو ایسا سبق سکھا دیں گے کہ ان کی اگلی پشتیں بھی اس سبق کا تذکرہ آتے ہی کانپ اٹھیں گی ، یہ تاثر تھا اور عوام دم بخود ،،کچھ اس پہ اعتبار کر تے اور کچھ ا س سے محض افواہ مان کر نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے رہے، ۶ جنوری کی صبح تھی،م جیسا کہ ہم سب جانتے ہیںکہ ٹھنڈ کی وجہ سے جنوری کے دن لرزتے اور کانپتے رہتے ہیں، شدید سردی کی لہر فضا پر محیط رہتی ہے اور سورج طلوع بھی ہوتا ہے تو خودبھی سردی کے عالم میں ٹھٹھرتا تا رہتا ہے، ایسی ہی ایک صبح تھی ۶جنوری،، اس سے پہلے کہ کچھ لکھوں میں اپنی اس خواہش کا اظہار ضرور کروں گا کہ کاش میرے قلم میں میکسیم کی سحر آفرینی ہوتی یا آستراوسکی کی روانی یاکم سے کم ابن صفی جیسی زباں پہ گرفت ہوتی تو میں کم سے کم یہ دعویٰ کرسکتا کہ ۶ جنوری لکھنے کا اہل ہوں مگر ان میں سے میرے پاس کچھ نہیں سوائے اس دکھ اور درد کے جو میں اپنی روح کی گہرائیوں میں پاتا ہوں ،جو مجھے تڑپاتی ہے بلکل اسی طرح جس طرح کوئی زندہ مچھلی ریگستان کی تپتی ریت پر تڑپ سکتی ہے، یہ زخم اگر چہ ہمیشہ ہی رستے ہیں لیکن ۶ جنوری کی آمد ان سب پھپھولوں کو پھوڈ دیتی ہے اور میں اپنی کم مائیگی اور اپنی بے بسی کے باوجود اس اتھاہ اور بیکراں درد کو قلم سے زباں دینے کی ایک ناکام کوشش کرتا ہوں، کیونکہ یہاں ایک کرب وبلا کا میدان بھی ہوگا اور پھر لٹے پٹے قافلوں کی شام غریباں بھی ،،،جس میں مائیں اپنے لخت جگروں کو ۔ بہن اپنے دلاروں کو اور دلہنیں اپنے نئے نئے سہا گوں کو دیوانہ وار کھوجتی نظر آئیں گی مگر کسی کو کچھ نہیں ملے گا سوائے ادھ جلی لاشوں کے،،
۶ جنوری ۱۹۹۳ کی صبح ہے ۔۹۳ کہا جاتا ہے کہ ملیٹینسی کا پیک تھا یا دوسرے الفاظ میں اپنے عروج پر تھی اس دور میں ہر طرف ملیٹنٹ چھائے ہوئے نظر آرہے تھے آر پار ایک کھلبلی مچی ہوئی تھی اور ابھی تک کوئی اندازہ نہیں تھا کہ یہ دور اپنے قدم کس سمت بڑھائے گا مگر ظاہر ی طور لگتا تھا کہ تنظیموں کی بھر مار ہے اور ہر جنگجو تنظیم آگے نکلنا چاہتی ہے ۔اپنی دھاک قائم کرنا چاہتی ہے سوچنے والے اس طریق طرز کو صحت مند قرار نہیں دے رہے تھے مگر حق بات یہی ہے کہ زبانیں بند تھیں ،سوچوں پہ جیسے پہرے لگ چکے تھے اور کہنے سننے کی نہ تو ہمت ہی تھی اور نہ کسی میں تاب ہی تھی بہر حال یہ ۶ جنوری کی صبح تھی، دور کہیں کسی جگہ سے فائرنگ کی ریٹ ٹٹ۔ ریٹ ٹٹ کی آوازوں نے مکینوں کو سہما کر رکھ دیا اور سوپور کے عوام اپنے گھروں کے اندر ہی دبک کر رہ گئے، دس بجے تک ماحول خوف زدہ رہ گیا اور پھر دھیرے دھیرے اکا دکا دکاندار دکانوں کی طرف رواں ہوئے۔ مجھے میرے دوست طارق نے بتایا کہ میرے ساتھ والے بینکر سے بی ایس ایف آفیسر نے کئی دکانداروں کو دکان کھولنے پہ نہ صرف اکسایا بلکہ حوصلہ بھی دیا ۔طارق عبدالاحد کنجوال کا بیٹا ہے جو ایک لمبی چوڈی دکانوں کی پوری لائن کی آگ سے بچنے والا اکیلا لڑکا تھا جس نے نہ صرف کئی ہولناک اور دل ہلادینے والے منظر دیکھے بلکہ موت کی آغوش میں پہنچنے کے بعد اس زندگی کے میدان میں نئے سرے سے قدم رکھ لئے، ہو سکتا ہے کہ ایسا ہی دوسرے دکانداروں کے ساتھ بھی ہوا ہو۔
وقت کی سوئی آگے بڑھتی رہی ۔آفتاب کی تمازت میں ہلکی سی جان پڑ گئی اور اب ٹرانسپورٹ بھی سڑکوں پہ بحال ہونے کے لئے پر تول رہا تھا ، شالہ پورہ گلی میں میوو¿ں کا ایک ٹرک ہے جو لوڈ ہورہا ہے اس ٹرک کو دلی کی طرف روانہ ہوناہے یہ ٹرک محمد عبداللہ شالہ کا ہے جس کے بھائی اور کزن ٹرک کو خود ہی لوڈ کر رہے ہیں گلی کے بلکل سڑک پار قبرستان کا ایک ٹکڑا ہے جس کے ساتھ وار بلڈنگ کھڑی تھی اسی وار بلڈنگ کی دیوار کے ساتھ ایک اکیلا بی ایس ایف والا دھوپ سینک رہا ہے اور ملیٹنٹوں نے کہیں سے فائر کیا یہ بی ایس ایف والا زد میں تھا ۔اور یہی وہ بہانہ تھا جس کی تاک میں یہ لوگ بیٹھے تھے اور آناً فا ناً کانگریس بلڈنگ سے لیکر چنکی پورہ تک دوسری طرف بس سٹینڈ سے شالہ پورہ اور تیسری طرف آرم پورہ سے بٹہ پورہ تک کے تمام نکڑوں کو سیل کردیا گیا جتنی بھی دکانیں کھلی تھیں دکاندار ۔ان میں چوہے دانوں کی طرح پھنس کر رہ گئے اور ان کے ساتھ ہی راہگیر بھی اپنی جان بچانے کی خاطر دکانوں کے اندر پناہ لیتے رہے،،سینما چونکہ چوک میں ہی تھا اس لئے لوگ یہاں بھی پناہ لینے کی خاطر بڑی تعداد میں اندر گھس گئے بلکہ بی ایس ایف نے بھاگتے لوگوں کو فائرنگ کرکے اسی طرف آنے پہ مجبور کیا یہ بھی شاید پلان کا ایک حصہ تھا ۔
اب ہم کچھ مناظر کو لائیو آپ تک پہنچائیں گے۔ سوپور کا کارڈن ہو چکا ہے فورسز بے قابو ہوچکے ہیں ان کے ساتھ ان کے آفیسر بھی چلا چلا کر ہر شخص کو گولی ماردینے کا حکم دے رہے ہیں ، سب سے پہلے یہ شالہ برادرس بی اایس ایف کے جنوں کا نشانہ بنے جو ٹرک لوڈ کررہے تھے ، یہ بھائی ایک ہی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور ابھی ایک گھنٹہ پہلے ٹرک لیکر دلی پہنچنے کا خواب دیکھ رہے تھے ،، کہیں کہیں لوگوں کی چیخ و پکار سنائی دے رہی ہے مگر اندھا دھند فائرنگ کی تڑاخ تڑاخ کے علاوہ دور دور تک کوئی آواز نہیں سنائی دے رہی اور وہ لوگ جن کے بیٹے ،بھائی اور گھر کے بڑے دکانوں پر جا چکے ہیں اپنے گھروں اور محلوں کے نکڑوں پر دیوانہ وار بین کر رہے ہیں کیونکہ فائرنگ کی آوازیں مین مارکیٹ کی طرف سے ہی آرہی ہیں اور کوئی اکا دکا جو کسی طرح سے بچ نکلا ہے وہ یہی کہتا ہے کہ چاروں طرف سے گولیوں کی باڑھ ماری جارہی ہے ۔اور یہ کیا؟ اب دور سے دھویں کے بادل بھی اٹھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے آگ کے شعلے بلند ہورہے ہیں۔
یہ واٹر ٹینکی ہے جو بانڈی پور روڈ پر سینما چوک سے کچھ ہی فاصلے پر ہے۔ یہاں عبدالاحد کنجوال مرحوم کی شاپنگ لائن ہے اور اوپر کی منزل میں ان کی بودو باش ہے نیچے دکان کے اندر خود عبدالاحد اور ان کے نوجوان بیٹے طارق کے ساتھ اور تین آدمی ایک نائی جس کی دکان بھی اسی لائن میں ہے ۔ایک راہگیر جو جان بچانے کی خاطر دکان کے اندر آیا ہے اور تیسرا بھی کوئی جان پہچان والا ہے، دکان کا شٹر ابھی کھلا ہے لیکن باہر سڑک پر موت کا تانڈو ہورہا ہے۔ فورسز کے جوان نعرے لگاتے ہوئے مارو ، جلادو ،اور اور گالیوں کے ساتھ ہر طرف گولیاں برسا رہے ہیں ،دکان کے اندر سے یہ لوگ باہر سڑک پر ہورہے موت کے ناچ کو ابھی تک باہوش وحواس دیکھ رہے ہیں اسی اثنا میں بانڈی پورہ کی طرف ایک سرخ ماروتی آگئی ، گولیوں کی باڑھ میں ڈرائیور نے قبرستان کی طرف چھلانگ لگائی ،کچھ پتہ نہیں کہ وہ شخص کہاں گرا ۔ اس کے بعد اسی روڈ سے ایک بس آگئی بس کو روک دیا گیا اس میں کتنی سواریاں تھیں کوئی اندازہ نہیں مگر اس بس میں کچھ بچے اور عورتیں بھی تھیں ،دروازہ کھول دیا گیا اور بس کے اندر بیٹھی ہوئی سواریوں پر باڈھ ماردی گئی ۔ایک شور محشر تھا اور یہ کربناک منظر ہم خود دکان کے اندر سے دیکھ رہے تھے ۔اور پھر کسی نے چہخ کر کہا۔ جلادو سالوں کو ،ایک بھی بچ کر نہ جانے پائے، اور سچ ان میں سے کوئی بچنے میں کامیاب نہیں ہوا بلکہ بس کو آگ لگائی گئی اور یہ سب زندہ ،زخمی یا مردہ بھسم ہوئے،، فوراًٍ ہی کسی بی ایس ایف جوان کو اس کھلی دکان کا خیال آگیا گولیوں کی باڑھ ادھر ماردی غلام حسن حجام اور راہگیر جان بحق ہوگئے ان کے تڑپ تڑپ کر جان دینے کے عینی گواہ ابھی تین آدمی دکان کے اندر موجود ہیں۔ تھر تھر کانپ رہے ہیں۔ موت کو بلکل اپنے قریب دیکھ رہے ہیں اور ٹھیک اندازہ کر رہے ہیں کہ ان کے آخری لمحات ہیں، کسی نے باہر سے چیخ کر کہا شٹر گرادو آگ لگادو، شٹر گرادی گئی یہ ان کی زندگیوں کا ڈراپ سین تھا۔
اب دکان کے اندر مکمل اندھیرا تھا بس کچھ ہی لمحوں کے اندر دھواں بھرنے لگا جس کا مطلب تھا کہ انہیں زندہ ہی جلانے کے لئے بند کیا گیا ہے دھویں سے دم گھٹنے لگا اور طارق نے محسوس کیا کہ ان کے والد صاحب کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں اسی لمحے اس سے خود بھی احساس ہوا کہ وہ ہوش کھو رہا ہے شاید یہاں کے سبھی بندھی اپنی جان دے چکے ہیں ، کس کو کہاں گولی لگی اور کون دم گھٹنے سے گھٹ گھٹ کر مرگیا۔ آخری لمحات میں پتہ نہیں کیسے طارق کے ہاتھ میں پانچ کلو کا پیمانہ آگیا اور نیم بیہوشی میں ہی دکان کی پچھلی دیوار تک پہنچ گیا جہاں اس نے اپنی آخری کوشش کے طور دیوار پہ پیمانہ مارنا شروع کیا ۔سانسیں رک رہی تھیں ،دھواں پھیپھڑوں میں کافی مقدار میں بھر چکا تھا اور اب کچھ آخری لمحات ہی تھے کیونکہ ذہن بھی ڈوب رہا تھا مگر کوئی انجانی اور ان دیکھی طاقت تھی جو وہ دیوار پہ آخری چوٹیں مارنے میں استعمال کر رہا تھا۔ اسی نیم بیہوشی کے عالم میں طارق کا یہ احساس جاگا کہ دیوار میں چھید ہوچکا ہے اور شاید وہ اپنی گردن اس چھید سے باہر نکال سکتا ہے۔ اور اس نے اس چھید میں گردن ڈال دی دھویں کے کئی مر گولے اس کے پھیپھڑوں سے خارج ہوئے اور اس کے بعد اسے اور کچھ یاد نہیں کہ اسے کیسے اور کن لوگوں نے ہسپتال پہنچایا جہاں پندرہ دن موت و حیات کی کشمکش سے باہرآکر اس نے پھر اس دنیا میں قدم رکھا ، اپنی یہ کہانی اس نے کئی بار ہیومن رائٹس کمیشن اور ان دوسرے کمیشنوں کو بتادی جو اس بربادی اور قتل عام کے لئے تشکیل دی گئیں تھیں۔ اس شاپنگ لائن کی آگ سے بچنے والا وہ آخری شخص تھا۔
سینما چوک سے عمر مارکیٹ تک صرف ہولناک آگ کے شعلے دکھائی دے رہے ہیں تمام دکانات میں آگ لگی ہوئی ہے اور اکثر دکانوں کے اندر دکاندار زندہ جل رہے ہیں مگر ان کی چیخ و پکار باہر نہیں آ پارہی ہے سڑکوں پر موت کے فرشتے رقص کر رہے ہیں ۔ایک سرے سے دوسرے سرے تک ان کی زباں پر صرف یہی ہے کہ ۔سالوں کو زندہ جلادو ،،ایک بھی باہر آ نے نہ پائے اور اس پہ پوری طرح سے عمل ہورہا جیسا میں نے لکھا کہ سینما کے اندر سینکڑوں لوگ پھنس چکے ہیں یہ لوگ سینما ہال کے اندر ہیں اور باہر کا انہیں کچھ پتہ نہیں مگر بی ایس ایف کو پتہ ہے کہ اندر سینکڑوں لوگ ہیں اس لئے انہوں نے باہر سے دروازوں کو بند کیا ہے ان سبوں کو آخر میں جلاکر راکھ کرنا ہے، زندہ جلانے کی رسمیں تو ان لوگوں کی ہزاروں سالوں سے چلتی آرہی ہیں جیسا کی تاریخی طور ثابت ہے کہ ستی کی رسم ان کے ہاں ایک مذہبی فریضہ تھی اور اب بھی جب کبھی انہیں موقعہ ملتا ہے اس رسم کو بڑی آسانی سے زندہ کرتے ہیں ۔اس لئے ابھی یہ لوگ دکانوں اور دکانداروں سے نپٹ رہے ہیں اور اس کے بعد یہاں چاروں طرف گن پاوڈر چھڑ ک کر آگ لگا کر تماشہ دیکھنا ہے، اندر پھنسے ہوئے لوگ فلم کے پردے کو پھاڈ دیتے ہیں ۔یہاں ان کی قسمت نے ساتھ دیا اور انہیں ایک دروازہ نظر آیا دروازہ زنگ خوردہ ہے مگر کئی لوگ اس دروازے کو اپنی جگہ سے مل کر تھوڈا سا کھولنے میں کامیاب ہوئے اور ان کی رہائی کا سبب بن گیا۔ بھاگتے ہوئے انہیں یہ معلوم پڑا کہ اوپر کی دو منزلوں سے آگ کے شعلے بلند ہوکر آسماں کو چھو رہے ہیں ، بعد میں انہیں یہ معلوم پڑا کہ یہ دروازہ سینما بناتے وقت پردے کے پیچھے صفائی کے لئے بنادیا گیا تھا اور آج یہ دروازہ سینکڑوں لوگوں کی زندگی بچانے کا سبب بن گیا.
سینما چوک میں ہی ایک اور دومنزلہ بلڈنگ ہے جس کے نیچے دکان اور اوپر میں دوسری منزل پر غلام نبی شاہیں کی فوٹو گرافی کی دکان تھی اس میں غلام نبی پھنس کر رہ گیا، باہر آنے کی کوشش کرتا تو گولی مار کر پھر اسے آگ میں پھینک دیا جاتا کیونکہ وہ دیکھ رہا تھا کہ جو شخص بھی دکان سے باہر آنے کی کوشش کرتا ہے اسے گولی مارکر پھر آگ میں جھونک دیا جاتا ہے یا اسی طرح زندہ اس کی گٹھری بناکر قہقہے لگاتے ہوئے اس سے آگ میں ڈالا جارہا ہے، وہ باہر آنے کی ہمت نہیں کرسکا ،اور آخر اسی دکان میں زندہ جل کر راکھ ہوگیا۔ نیو لائٹ کے سامنے لاشوں کے ڈھیر ہیں اور نیو لائٹ کے غلام نبی بٹ نے کہیں سے ایک ریڑہ حاصل کرکے کمال ہمت سے ان لاشوں کو ریڑے پر ڈال کر محلہ شاہ آباد تک پہنچایا اور پھر دوسری مرتبہ بھی کچھ اور لاشوں کو آگ میں جلنے سے بچانے کی کوشش میں نیو لائٹ تک پہنچا مگر اس بار کسی بی ایس ایف کے جوان نے اس کو دیکھا اور اسی جگہ گولیوں سے ڈھیر کردیا۔
یہ سب نہتے تھے ۔ ان میں کوئی ملیٹنٹ نہیں تھا، کوئی بندوق بردار نہیں تھا ،سب یا تو دکاندار تھے یا راہگیر تھے جو بد قسمتی سے یا تو ڈیوٹی پر جانے کے لئے گھروں سے نکلے تھے یا کہیں اور پہنچنے کی مجبوری کے سبب کارڈن کئے گئے تھے ۔دو بجے کے بعد یہ معلوم ہونا شروع ہوا کہ کیا ہوا ہے اور کون کون سی شاپنگ لائن راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوئی ہے لیکن زندہ جلنے والوں کی تعداد ابھی تک کسی کو معلوم نہیں۔ سارا سوپور چونکہ کارڈن تھا اس لئے کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا مگر ہر طرف شور محشر بپا تھا اور جتنے بھی لوگ اس کارڈن میں پھنس چکے تھے ۔مر چکے تھے یاآگ میں بھسم ہوچکے تھے ابھی تک تعدادمعلو م نہیں تھی، ٹھٹھرتا ہوا سورج ڈھلنے کو تھا جب موت کے فرشتے اپنے کیمپوں میں اپنی تھکان دور کرنے کی خاطر جام پینے لگے ۔ قہقہے لگانے لگے اور شاید ایک دوسرے کو اپنے وہ کا رنامے سنانے لگے جو انہوں نے آج سوپور میں انجام دئے تھے۔
یہ ۶ جنوری ۱۹۹۳ تھی مگر شام ابھی نہیں ڈھلی تھی اور شام کی سرحدوں پر جب ہم نے نیولائٹ ہوٹل سے نگاہ دوڈائی تو سیدھی آرم پورہ چوک تک جا پہنچی کہ اب اس درمیان کوئی عمارت اور بلڈنگ کھڑی نہیں تھی بس یہاں سے وہاں تک ہرطرف دھواں اٹھ رہا تھا جیسے سارے سوپور نے دھویں کا کفن اوڈ ھ لیا تھا ،مگر یہ کثیف دھواں بھی کیسا تھا جس سے انسانی گوشت جلنے کی لپیٹیں اٹھ رہی تھیں۔ اور تب ہی وہ سب لوگ چھوٹے بڑے، مائیں بہنیں بوڈھے باپ اور جوان بیٹے اپنے عزیزوں غمخواروں اور جگر کے ٹکڑوں کی تلاش میں دیوانہ وار ،پاگلوں کی طرح برہنہ پا اور برہنہ سر کے ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر ،ایک ملبے کے ڈھیر سے دوسرے ملبے کے ڈھیر کی طرف دوڈ رہے تھے، جو ابھی تک کہیں کہیں سلگ رہے تھے اور کہیں کہیں ابھی تک آگ اگل رہے تھے۔۔ مگر لوگ تھے کہ اپنے ہاتھوں سے جلتے انگاروں اور جلتی لکڑی کو ہٹا ہٹا کر دیکھ رہے تھے ۔کھوج رہے تھے کہ آج صبح ان کے جگر کے ٹکڑے جو دکانوں کی طرف گئے تھے، کہیں یہیں تو نہیں ۔اسی آگ کے ڈھیر میں تو نہیں ،ان ہی ملبے کے ڈھیروں میں تو نہیں۔ کسی کا ادھ جلا سر تو کہیں سے کسی ملبے کے ڈھیر سے ادھ جلی ٹانگ نظر آرہی تھی یہ شام تھی ،یہ کیسی کربناک شام تھی یہ کیسی اندوہناک اور ہیبتناک شام تھی سوپور کا ہر گھر ماتم کدہ تھا یہاں کے ہر گھر سے بین کی آوازیں آرہی تھیں ہر گلی کوچے سے آہ و بکا کی صدائیں گونج رہی تھیں ، گھر ماتم کدوں میں تبدیل ہوچکے تھے ۔اس دن جلد ہی اندھیروں نے سوپور کو اپنی کالی اور سرد چادر میں چھپادیا تھا کیونکہ روشنی منہ چھپانے کی کو شش میں تھی۔چوک سے آرم پورہ تک انگاروں اور ملبے کے ڈھیروں کے سوا کچھ اور نظر نہیں آرہا تھا اندھیرے گہرے ہوگئے تلاش رک گئی اور نہ تھم گئی، رات بھر لوگ اپنے جگر گوشوں کی تلاش میں ملبے کے ڈھیروں سے لپٹتے رہے اور جس نے بھی انسانی گوشت کا جو ادھ جلا ٹکڑا پایا اس سے سینے کے ساتھ لپتائے رہا تاکہ کل دن کے اجالوں میں ان ٹکڑوں کی پہچان کر سکیں مگر نہ پہچان پائے کئی دنوں کے بعد تک ملبے سے یہ اعضاء نکلتے رہے اور بہت سارے لوگ وہ تھے جو ملے ہی نہیں بلکہ آگ کے شعلوں سے ہواوں میں تحلیل ہوچکے تھے۔
سوپور کے عوام کی تلاش آج بھی جاری ہے ۔آج تک ختم نہیں ہوئی جو اس سوال کا جواب چاہتے ہیں کہ ان بے قصوروں کا قصور کیا تھا اور وہ کس جرم بے گناہی میں زندہ جلادئے گئے تھے عوامی اعداد شمار اور فہرست کے مطابق جو اس وقت موجود ہے سٹھ سے زیادہ جانیں اس کرب و بلا بود سے نابود ہوئیں ، کچھ کا سراغ نہیں ملا ، کچھ افراد کے تھوڈے سے اعضا ملے اور کچھ ملبے کے ڈھیروں سے بر آمد کئے گئے ،ہر برس ۶ جنوری آتا ہے اور ہر برس سوپور کے عوام اس سیاہ دن کی یادوں سے تڑپ کر رہ جاتے ہیں اور ہر ۶ جنوری کی شام ۔شام غریباں ہوتی ہے ۔ اب لاشوں کی تلاش تو نہیں رہی لیکن انصاف کی تلاش ابھی تک ضرور ہے اگرچہ انصاف کی ڈگر بھی اتنی ہی دور ہے جتنے دور یہ سارے لوگ جا چکے ہیں لیکن اس سے کیا کہئے کہ امید انسان کو زندہ رکھے ہوئے ہے ۔