210

مسلم دنیا۔۔۔ مجبور و محکوم۔۔۔ تیرے درد کا درماں کیا ہے؟

رشید پروین سوپور

”اللہ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کیے کہ انہیں ضرور ملک کی حکومت عطا کرے گا جیسا کہ ان سے پہلوں کو عطا کی تھی، اور ان کے لیے جس دین کو پسند کیا ہے اسے ضرور مستحکم کر دے گا اور البتہ ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا، بشرطیکہ میری عبادت کرتے رہیں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، اور جو اس کے بعد ناشکری کرے وہی فاسق ہوں گے“۔ (النور 55) ا ور اس ایمانی بیانیہ کے ساتھ لازماً یہ شرط بھی عائد ہوجاتی ہے کہ ”سو تیرے رب کی قسم ہے یہ کبھی مومن نہیں ہوں گے جب تک کہ اپنے اختلافات میں تجھے منصف نہ مان لیں پھر تیرے فیصلہ پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور خوشی سے قبول کریں“۔(النساء64) ان دو آیت کریمہ میں مسلم امہ اور مسلم معاشروں کو بنیادی طور پر سمجھایا گیا ہے اور یہ احکامات دئے گئے ہیں کہ زمانے میں امامت کے لئے مختصر طور پر کِن اوصاف کا ہونا لازمی ہے اور ، ہم حال کا جائزہ لیتے ہیں تو مسلم دنیا میں ایک عجیب طرح کی ابتری ، انتشار، اضطراب ، کمزوری ، ضعیفی اور انحطاط کا عالم پاتے ہیں جس کی تشریح بھی بعض اوقات ہم صحیح طور پر نہیں کرپا تے ، اوراس انحطاط کے عوامل پر غور کرنا بھی ہمارے لئے شجر ممنوع ہوچکا ہے۔ بے شک ہماری حالت مغرب سے بھی گئی گذری اور بد تر ہے کیونکہ اس دور میں بھی جب مغربی تہذیب اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوچکی ہے اور عملی طور پر مردو زن اور جنسی رحجانات میں قوم لوط سے بھی آگے بازی لے چکی ہے ، اور ایک خدا بیزار معاشرے کی تشکیل میں بہت آگے بڑھ چکی ہے لیکن عملی اور زمینی سطح پر یہ لوگ معاشرتی اور انفرادی طور پر ابھی کئی خوبیوں کے حامل ہیں اور اپنے اس اخلاقی طور زوال پذیر، جنسی بے راہرو معاشرے میں بھی دھوکہ دہی ، فریب، ٹیکس چوری ، بجلی چوری، سرکاری املاک اور خزانہ عامرہ کی لوٹ مارسے گریزاں ہیں، اشیاءضروریہ میں ملاوٹ نہیں کرتے ،کیپسولوں میں آٹا بھر کر نہیں بیچتے اور امرت کے بجائے زہر بیچنے سے ا حتراض کرتے ہیں۔ ابھی تک ان کے حاکم معمولی خطاو¿ں پر مستفعی ہوجاتے ہیں، ورک کلچر ان میں موجود ہے ، عدالتیں آزاد ہیں اور مبنی بر انصاف بھی فیصلے ہوتے ہیں اور کسی بھی طرح ابھی تک اپنی حکومتوں کے پیسے چوری چھپے ہڑپ نہیں کرتے ۔ تعلیم کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے اور نہ عوام کی صحت اور علاج معالجوں میں کسی طرح کا کوئی غیر ذمہ دارانہ ماحول پنپنے دیتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے طرز معاشروں کے مطابق ابھی تک عدل و انصاف قائم کئے ہوئے ہے اور کوئی بھی انسان قانون اور آئین سے بالا تر نہیں ۔
حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ کفر کے معاشرے چل سکتے ہیں عدل و انصاف سے عاری معاشرے نہیں چل سکتے ‘ اصل میں مسلم ممالک سے عدل و انصاف کا جنازہ بہت پہلے اٹھ چکا ہے ،اور قانون کی تلوار ہر مسلم ملک میں صرف کمزور اور عام انسان پر بے دریغ چلتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ مغربی معاشرے ابھی زمین پر اپنی تمام تر خباثتوں اور اللہ سے بغاوتوں کے باوجود زندہ ہیں، امامت کے درجے پر فائض ہیں اور ابھی آگے بھی مستقبل میں آگے ہی رہیں گے ۔
اب اوپر کے اقتباس کی روشنی میں ذرا یہ غور کریںکہ مسلم ممالک میں اجتماعی یا انفرادی طور پر کیا باقی بچا ہے ؟ہمارے پاس سرے سے کوئی خوبی ہی نہیں ، نہ کوئی اصل اسلامی خوبی ہے اور نہ ہی ہمارے پاس کوئی مغرب سے بہتر خوبی ہے ، ہم مغربی ممالک کی نقل ضرور کرتے ہیں لیکن یہ صرف رکھ رکھاو¿ ، رسم و رواج، رہن سہن اور دوسری خرافات وغیرہ تک محدود تو ہے لیکن ہم میں مغرب کی طرح ا نفرادی یا اجتماعی طور دیانت ، امانت اور ذمہ داری کا کوئی احساس ہی نہیں۔ ہمارے مسلم ممالک کے شہنشاہ آج بھی اربوں اور کھربوں ڈالرز خرچ کرکے دنیا کی بہترین نشاط اور تفریح گاہیں تعمیر کرکے اپنے اور اپنے خاندانوں کے لئے سونے چاندی کے جہاز مہیا تو رکھتے ہیں لیکن امریکی اور مغربی قوتوں کے سنگ آستاں پر سجدہ ریز ہونے کے لئے مجبور ہیں کیونکہ کوئی بھی مسلم ملک ان قوتوں کے بغیر صحیح سالم اور ٹوٹ پھوٹ کے بغیر نہیں رہ سکتا اور کوئی بھی شخص اپنی مقبولیت یا اوصاف حمیدہ پر حکمران بھی نہیں رہ سکتا جب تک اس کے سر پر امریکی ہاتھ نہ ہو۔ مسلم ممالک کی تعداد لگ بھگ ۷۵ ہے جن میں مسلم دنیا کا واحد ایٹمی پاور پاکستان آج کی دنیا کے بہتر اور بدترین دونوںمعاشروں کے لئے بھی نشان ِ عبرت بنا ہوا ہے۔ کیا یہ ایک انہونی نہیں؟ کسی مسلم ملک کا کوئی تابناک مستقبل نظر نہیں آتا اور یہ کہ سب اور ہر طرح کے جائزے بتارہے ہیں کہ مسلم دنیا پر چھائی ہوئی سنگین رات کی سحرکا ابھی گمان بھی نہیں کیا جاسکتا ہے ۔مسلم ممالک کی تقدیر بھی دیکھئے کہ کیسے اور کن ہاتھوں سے لکھی جارہی ہے، عراق کی تباہی کیمیکل ویپن کی آڑ میں ہوئی تھی، ایران کو مسلم دہشت گردی کی آماجگاہ قرار دے کر پابندیوں کا سامنا ہے، مصر اسلامی انقلاب بر پا کرنے اور اخوان المسلمون کو اقتدار میں لانے کی سزا ابھی تک بھگت رہا ہے،کشمیر، فلسطین، چیچنیا، روہنگیائی مسلم، ماضی قریب میں سلواکیہ، ہرزیگونہ اور اس کے بعد، لیبیا، شام، افغانستان، لگ بھگ ساری مسلم دنیا جس بے دردی سے کچلی جارہی ہے اور جن اندھیروں میں پھینک دی گئی ہے، ہمیں اس کا یا تو ادراک ہی نہیں یا شتر مرغ کی طرح اپنے پنکھوں میں سر چھپا لیا ہے۔
اسرائیل ایک چھوٹی سی ناجائز ریاست جس کا ۸۴۹۱ سے پہلے کوئی وجود ہی نہیں تھا ، اس وقت ۷۵ مسلم ممالک کے سینے پر مونگ دل رہی ہے اور مسلسل گریٹر اسرائیل کو عملی شکل دینے پر تیز رفتاری سے گامزن ہے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غیر مسلم ممالک ہم سے کتنا آگے اور سائینسی آسمانوں میں کہاں تک اپنی کمندین ڈال چکے ہیں لیکن مسلم ممالک کا اس ڈرامے کو خاموش تماشیوں کی حیثیت سے دیکھنے کے سوا اور کوئی کردار نہیں، کیونکہ وہ سائنسی لحاظ سے ترقی یافتہ ممالک اور اقوام سے صدیوں پیچھے ہیں، جب کہ قرآن حکیم نے مسلم کو شروع سے ہی تحقیق اور علم حاصل کرنے کی بار بار تلقین کی تھی ۔
دنیا کی خلافت اور امامت سے مسلم دنیا محروم کیوں ہے ؟ نہ صرف محروم ہے بلکہ اب دنیا کی مظلوم ترین قوم ہے باطل اور مشرک اقوام ، مسلم قوم اور مسلم ممالک کو سرے سے مٹانے کے منصوبے بہت پہلے ہی تشکیل دے چکے ہیں اور بغیر کسی لاگ لپٹ کے اعلانیہ ا ن منصوبوں کو رو بہ عمل لایا جارہا ہے ۔ یہ وہی مسلم قوم ہے جس نے کبھی زمانے کے رنگ ہی بدل ڈالے ہیں۔اوریہ شب و روز اس بات کے گواہ ہیں کہ زمانے نے اسلام کے طلوع آفتاب سے اس بات کا پورا مشاہدہ کیاہے کہ دین کی اصل اور اساس ہی انسانیت کی بلندی اور ایک فلاحی معاشرے کی تشکیل ہے اور یہ معاشرے ہماری تاریخ کے سنہری باب ہیں۔ کوئی دو رائیں نہیں کہ عرب کے بدوو¿ں، جاہل اور علم سے عاری معاشرے نے جب اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے فرمان کے مطابق اپنے آپ اور معاشرے کو ڈھالا تو دنیا کی امامت ان کی، سائنس، ترقی تہذیب و تمدن علم و ادب غرض سب کچھ پر اسلامی چھاپ اور مہر لگ گئی۔ یہی وہ دور تھا جب اسلامی فن ادب، رہن سہن، تہذیب و تمدن اور سائنس وٹیکنالوجی نے اس سارے زمانے میں ایک انقلاب پیدا کیا اور اس دین اسلام نے وہ اسلامی معا شرے تشکیل دئے، ایسے حکمراں پیدا کئے اور ایسی شخصیات پیدا کیں کہ ایک معمولی عورت کی فریاد سندھ کے قید خانوں سے یوسف بن حجاج تک پہنچتی ہے اور اس سے احساس دلاتی ہے کہ اس کی قلمرو میں ایک مسلم عورت قید کیسے رہ سکتی ہے؟ اور یہ وجہ بنتی ہے کہ سارا سندھ محمد بن قاسم کے ہاتھوں فتح ہوتا ہے ظاہر ہے کہ ہمارا ماضی انتہائی شاندار رہا ہے اوراوائل صدیوں میں عالم اسلام نے کسی بھی شعبے میں کوئی کوتاہی نہیںکی، وہ سائنسی ہو ، علمی ہو ، تہذیبی اور تمدنی ہو غرض مسلم لشکروں نے صحرا اور سمندر دونوں پر محیط ہوکر دنیا کے بہت سارے حصے میں مسلم حکومتیں قائم کیں اور زمینوں کو مسخر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اوصاف ، اور دین کی پیروی کرتے ہوئے قلوب کو تسخیر کیا جس کی وجہ سے اسلام کا آفاقی پیغام چہار دانگ عالم پہنچا اور سینکڑوں کی تعداد میں مسلم ریاستیں یا ممالک وجود میں آئے جن کی د ھاک اور دبدبہ دور دور تک صحرااو ر سمندر دونوں پر یکساں تھا ، جس نے ساری دنیا کی امامت اور رہبری کے لئے عالم اسلام کو مستحق ٹھہرایا لیکن اب حالات یکسر بر عکس ہیں۔
کیا اب بھی ہمیں اس تنزلی کے اسباب پر تفکر نہیں کرنا چاہئے؟ کیا ہمیں ان عوامل کو کھوجنا نہیں چاہئے جن کی وجہ سے وسیع تر اور عظیم معدنی وسائل کے باوجود ہم ایک غلامانہ ، اور تحقیر آمیز زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ؟ اب بھی دنیا میں مسلم دیشوں اور مسلم ممالک کی تعداد ستاون ہے لیکن حالات یہاں تک خراب ہیں کہ مسلم جانوں پر کارپٹ بمباری کرنے والے بمباروں میں ایندھن بھی ہمارا ہی ہوتا ہے اس کا خرچہ بھی ہم ہی اٹھاتے ہیں؟ مسلم دنیا آسمانوں کی طرف دیکھتی ہے لیکن انہیں جو ہدایات آسمانوں سے آئی تھیں کیا کبھی وہ ان پر تفکر کرتے ہیں؟ ، پھر آپ کی دعاو¿ں میں کیوں اثر ہو اور کیوں قبول ہوں ؟ ہمارے کعبہ و قبلہ کے نگہباں اور پاسباں اربوں ڈالرامریکہ کی خوشنودی اور خوش آمد پر نثار کرتے ہیں لیکن مسلم دنیا کی زبوں حالی پر سوچنے کے لئے ان کے پاس وقت نہیں، کیا ہماری حالت اُس وقت کے عراق کی نہیں جب ہلاکو بغداد کا قتل عام کر ر ہا تھاتو شہر میں اس وقت بھی لاحاصل مذہبی مناظرے جاری تھے ؟ ”ہم نے تفکر کا دامن ہی چھوڈاہے۔ جس کے رد عمل میں ہم سے زمانے کی امامت بھی چھن گئی اور باطل اور الحاد کے مقابلے سے بھی دستبردار ہوئے۔

خدا سے پھر وہی قلب و نظر مانگ
نہیں ممکن امیری بے فقیری (اقبال ؒ)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں