ڈاکٹر محی الدین زور کشمیری
There is a Hope, Even when your Brain tells you there isn’t (Johngreen)
2014 فروری کی بات ہے میں اور ڈاکٹر الطاف انجم لکھنؤ یونیورسٹی میں ایک تربیتی کورس کر رہے تھے۔ ایک روز ہمارے رِسورس پرسن اُس یونیورسٹی کے سماجی بہبود شعبے کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر راجیش مشرا تھے۔ وہ تیسری جنس سے تعلق رکھتے تھے۔ اپنے لیکچر میں وہ اپنے مخصوص انداز میں کہنے لگے، "ہائے ہائے کیوں رے وہ معصوم لڑکی خودکشی کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ آخر اس سماج کو کوئی کیوں نہیں پوچھتا ہے کہ تم کیوں ان دوشیزاؤں کو اس قدر مجبور کرتے ہو کہ وہ خودکشی کرلیتی ہیں۔ پیار کرنے پر اتنی سخت سزا –اُف اُف” اور اس طرح وہ کبھی پیار محبت اور کبھی ایسے دوسرے معاملات پر اپنے خیالات کا بیباک طریقے سے اظہار کرنے لگا۔ اس بیچ میں کبھی شاعروں پر حملہ کرنے لگا اور کبھی مذہب پر۔۔
مجھ سے یہ برداشت نہیں ہوا اور میں نے ان سے اختلاف رائے کا برملا اظہار کیا اور انہیں یہ بھی کہا کہ ہم اپنے طلبہ کو درس دیتے ہیں۔ کیا ہم آپ سے یہی سیکھنے کے لئے ہزار کلومیٹر طے کرکے آئے ہیں۔۔۔ خیر میری باتوں کو یا تو انہوں نے ٹالا یا وہ اپنے خیالات کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہیں تھے کیونکہ وہ کوئی ایرا غیرا آدمی نہیں تھا بلکہ ایک یونیورسٹی کے شعبے کا سربراہ، کئی انجمنوں سے وابستہ اور کئی بیرونی ممالک کی سیر کرکے بھی آیا تھا، مگر یہاں بھی وہ اپنے انداز کو نہیں بدلا اور مجھے کہا؛ "بڑے جوشیلے ہو تم گلابی سیب رنگت کے کشمیری”۔ خیر ہمارے سامنے یہ مسئلہ نہیں ہے کہ کوئی بھی لڑکا یا لڑکی ایک دوسرے سے پیار کرنے لگیں ، تو گھر اور سماج کو ان کا دشمن بننا چاہئے یا گھر اور سماج انہیں پھول مالا کیوں نہیں پہناتے ہیں۔ پیار کرنا کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہے، جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے، نہ ہم پیار کے دشمن ہیں اور نہ ان کے حامی ہیں بلکہ صرف اتنا تو جانتے ہیں کہ آج کل نہ کوئی لیلیٰ ہے اور نہ کوئی مجنوں، نہ ہیر ہے اور نہ رانجا، نہ سونی ہے اور نہ مہیوال، بلکہ عاشق و معشوق جنس کا سودا کرتے ہیں، کہیں ہوس اور لالچ کی وجہ سے بھی یہ کھیل کھیلا جاتا ہے۔ اب اگر کہیں سچی محبت ہے بھی تو وہاں اکثر تاج محل اپنے لئے بنائے جاتے ہیں نہ کہ قوم کو شاہجہاں کی طرح کوئی فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ ویسے عاشقوں نے اگر دودھ کی نہر (شیریں فرحاد) نکالی بھی ہمارے لئے نہیں، ہم بوند بوند کے لئے ترس رہے ہیں۔ جس طرح کل ہی ہندوستان کے عام لوگوں کو کہا گیا کہ چندریان 3 کی کامیابی کے حوالے سے آپ کے کیا خیالات ہیں تو ان میں اکثر لوگوں کا یہی جواب تھا کہ چندریان چاند پر جائے ہمیں اس سے کیا لینا دینا، ہمیں اس زمین پر رہنے کے لئے گھر، کھانے کے لئے دال روٹی اور پہننے کے لئے کم از کم کھادی کا کپڑا تو دے دو۔ ٹھیک یہی سوچ میری بھی ہے، لیلیٰ مجنوں کے قصے ہم یہاں1947 ء سے سنتے آئے ہیں مگر عام کشمیریوں کی مفلسی کبھی ان سے دور نہیں بھاگی!۔
تو جناب یہاں مختصراً میں اس مسئلے پر بات کروں گا۔ کہ عشق و عاشقی میں دونوں کا ایک ساتھ مرنا یا خودکشی کرنا پہلا اور لازمی شرط ہے۔ اس لئے ان پر رونا کیا معنی رکھتا ہے۔ البتہ ہمارے سامنے یہ مسئلہ ہے کہ کچھ لوگ مفلسی کی وجہ سے بھی خودکشی کرلیتے ہیں۔ کل ہی ایک ویڈیو پاکستان کا دیکھا جس میں ایک ماں نے اپنی پندرہ سالہ لڑکی کا پوسٹر لگایا جس پر لکھا ہوا تھا "لڑکی برائے فروخت” ۔ اتناہی نہیں بنگال، بہار اور اب روہنگیا کی کمسن لڑکیوں کو کشمیر کے ناتوان، اپاھج، بے کاروں، آواروں، بوڑھوں، بے دماغوں، لچے لفنگوں کے گلےباندھا جاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں حیدر آباد شہر میں دولت مند عرب شیخ آکر وہاں کی مقامی لڑکی سے نکاح /متعہ کر لیتے ہیں اور مہینے کے بعد اسے وہیں یہ چھوڑ دیتے ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ کچھ برس پہلے کشمیر میں بھی ایک ایسا واقعہ پیش آگیا۔!
ایسے واقعات صرف عورتوں کے ساتھ ہی پیش نہیں آتے ہیں مرد بے چارہ اس سے زیادہ ظلم کا شکار ہو جاتا ہے۔ مفلسی سب بیماریوں کی جڑ ہے۔ انٹرنیشنل دہشت گردی میں ایک واقعہ یہ بھی پیش آیا کہ ایک شخص بہت غریب تھا ۔ اپنے معصوم بچوں کو وہ روٹی نہیں کھلا سکتا تھا، تو انہیں کسی دہشت گرد تنظیم نے ایک بھاری رقم دے دی، اس کو اپنی بیوی بچوں کے نام پر رکھا اور خود کو تنظیم والوں کے کہنے پر بارود سے اُڑادیا۔! اسی طرح چوری ڈکیتی کے واقعات پیش آجاتے ہیں۔ اگر ان مجرموں کی لائف ہسٹری یا چور بننے کے بنیادی وجوہات کے بارے میں سوچا جائے تو یہاں زیادہ تر دو طرح کے لوگ ہمیں ملیں گے۔ (1) جن کے ساتھ یا ان کے رشتہ داروں (باپ، بھائی، بہن) کے ساتھ پہلے کسی نے زیادتی کی اور پھر وہ عام انسان بھی بدلہ لینے کے لئے تیار ہوا یا ایسے بھی لوگ ہوں گے جو غریبی، لاچاری کی وجہ سے کوئی غلط راستہ اختیار کر لینے کےلئے مجبور ہو گئے۔
برسوں پہلے متھن چکرورتی کی فلم "مجرم” کا یہ گانا سنئے "مجرم نہ کہنا مجھے لوگو! مجرم تو سارا زمانہ ہے۔۔۔” اسی طرح متھن دا کا گانا ہی ہے "پاپی پیٹ کا سوال ہے (فلم مداری)
ہندوستانی انگریزی کے ایک معروف مصنف ملک راج آنند نے اپنے ناول Untouchable میں کیا خوب لکھا ہے Hate the sin, but not sinner
ہمیں ہر اُس شخص کو جو کسی بے بسی، مجبوری میں مبتلا ہے، اس کی ہر ممکن مدد کر لینی چاہئے اور جتنا ہو سکے تو اس کی کاؤنسلنگ بھی ضروری ہے۔ اس کے لئے ہمیں ضرور وقت نکال لینا چاہئے اور ایسے افراد کو اپنے آپ سے دور نہیں کر لینا چاہئے، وہ ہمارے گھر کا فرد ہو، آفس کا ممبر ہو یا پھر ہمارے پڑوس میں رہنے والا کوئی بھی شخص ہو۔
اس بات پر مجھے چلتے چلتے ایک دو واقعات بھی یاد آگئے۔ مشہور فلم گیت کار سبھاش آنند کے بیٹے کو اپنے دفتر والوں نے اس قدر تنگ کیا کہ انہوں نے ٹرین کی پٹری پر جاکر اپنی بیوی کے ساتھ خودکشی کر لی اور ان کی دس بارہ سالہ بچی شدید زخمی ہوگئی۔
ہم کشمیری لوگ بھی پارسا نہیں ہیں۔ ہمارے دفتروں، کاروباری اداروں میں ہمارے ساتھی کی کوئی پرابلم ہوگی تو ہم اس کی مدد نہیں کرتے ہیں بلکہ اس سے دور رہنے کی ہی کوشش کرتے ہیں۔ خاص کر اگر کوئی شخص کسی نفسیاتی مرض میں مبتلا ہوگا یا اس میں اس قسم کے کچھ اثرات ہوں گے تو ہم اسے اچھوت سمجھ کر اس کو اپنے حال پر ہی نہیں چھوڑ دیتے ہیں بلکہ اسے پائی پائی کا حساب بھی لیتے ہیں۔ یہاں تک ان کی تنخواہ بند کرتے ہیں یا انہیں کام پر ہی نہیں رکھتے۔ ان کی اجرت یا جائیداد ہڑپ لیتےہیں۔
اسی سال قمرواری سرینگر میں ایک مریض نے جہلم میں کود کر خودکشی کرلی ، وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس اپنے علاج معالجے کے لئے روپیہ نہیں تھا اور وہ اپنی ماں کی لاچاری کو برداشت نہ کر سکا۔ اسی طرح ایک پولیس والے نے اپنی رائفل سے خود کو گولی مار دی کیونکہ وہ برسوں سے جلد کینسر میں مبتلا تھا اور دفتر میں اتنی سخت بیماری کے باوجود ان کے ساتھ کوئی بھی نرمی نہیں برتی گئی، جس کے نتیجے میں انہوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔
اب میں اپنے قلم کو روک لیتا ہوں اور خودکشی حرام ہے یا مجبوری ہے، اس کا فیصلہ قارئین خود کرلیں گے۔ حرام کا تعلق علم سے ہے اور مجبوری کا تعلق عمل سے ہے کیوں نہ ہم علم کو سمجھ کر عمل کریں تاکہ ہمارا کوئی اپنا اس حرام عمل کو کرنے کے لئے مجبور نہ ہوجائے۔!